عورت کی آزادی،حقوق اور مارچ

چند روز قبل میرے ایک کالم بعنوان ”عورت مارچ کا ہنگامہ” کے حوالے سے معزز قارئین نے اپنے اپنے تاثرات سے آگاہ کیا۔ اگرچہ یہ تمام احباب مختلف فکر رکھنے والے ہیں مگر سب کو اپنے سماج میں عورتوں کی ابتر حالت کا احساس ہے اور وہ اس صورتحال کو بدلنے کے خواہاں ہیں۔
انہوں نے اس تلخ حقیقت کا اظہار بھی کیا کہ ہمارے مُلک کے وجود میں آتے ہی خواتین کو بالعموم امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے۔اس کی وجہ وہ طبقاتی معاشرہ ہے کہ جس میں گھریلو تشدد’غیرت کے نام پر قتل’وراثت سے محرومی’کاروکاری اور جبری شادی کے واقعات عام ہو چکے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان سب رسموں کا ختم ہونا عورت کی عزت اور حیثیت بحال کرنے کی طرف اہم قدم ہوگا۔ دنیا بھر میں عورتوں کی تعلیم و آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں اور عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم کیا جانے لگا۔ انگریزی میں اس کے لیے فیمنزم کا لفظ استعمال ہوا ۔ مختلف ممالک میں اس کی توجیہات الگ الگ سامنے آتی رہیں،اس کی وجہ یہ تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا تصور بدلتا گیا اور اس میں وسعت آتی گئی۔
ہمارے ہاں انیسویں صدی میں اس کی ابتدا ہوئی۔ عورتوں کی تعلیم اور آزادی پر زور دیا جانے لگا ، ان رسموں کے خلاف آواز اٹھائی گئی جن کی وجہ سے عورتوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ مولوی ممتاز علی تحریک آزادی نسواں کے بہت بڑے حامی تھے ۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے اپنی ایک نظم ”چپ کی داد” میں عورت کی عظمت و اہمیت کا احساس لوگوں کو دلایا اور اس کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کیا۔
قیامِ پاکستان کے بعد آنے والے ادوار میں پاکستانی معاشرہ سماجی ترقی اور روشن خیالی کی طرف بتدریج رواں رہا۔ جہاں تک معاشرے میں عورت کی حیثیت کا تعلق ہے تو اعدادو شمار کے مطابق لڑکیاں ہر سال پہلے سے بڑھ کر سکول ،کالج اور یونیورسٹی میں داخلہ لیتی رہیں اور شہری آبادیوں میں خواتین کا ملازمت کرنا ہرگز معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہ تاریخ کا ایک عجیب وقوعہ ہے کہ بعض منفی حالات کے بطن سے چند مثبت نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔ پاکستان میں پہلے مارشل لا کے دورن جہاں پریس آرڈیننس اور یونیورسٹی آرڈیننس کو باشعور طبقہ نے ہمیشہ کالے قانون کا نام دیا وہاں عائلی قوانین کے نفاذ کاباشعور عوام نے خیر مقدم کیا۔ اس آرڈیننس کے تحت زبانی طلاق کا رواج ختم کیا گیا اور مردوں پر دوسری شادی کے خلاف یہ پابندی عائد کی گئی کہ وہ دوسری شادی کی معقول وجہ پیش کرنے کے ساتھ پہلی بیوی کا اجازت نامہ بھی داخل کریں۔ہاں اس کی بعض شقوں پر اسلامی نقطہ نگاہ سے اعتراض بھی ہوا۔ مغرب میں جب خواتین کے حقوق کی تحریکوں کا آغاز ہوا تو وہاں بھی پہلا ردعمل منفی تھا۔ وہ یہ سمجھے کہ فیمنزم کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کومردوں سے خالی کر دیا جائے۔ جب مغرب کے روشن خیال معاشرے کا یہ عالم تھا تو ہمارے ہاں اسے سمجھنے میں دیر لگی ۔ اب کچھ عرصہ سے خواتین کے دن کی مناسبت سیمینار، اجتماعات اور جلوس کا اہتمام کیا جارہا ہے، جس میں عورت کے استحصال کے حوالے سے جہاں معاشرتی رسم و رواج کے خلاف آواز اُٹھائی جاتی ہے وہاں مرد حضرات کو شدت سے معتوب بھی کیا جاتا ہے۔ لوگوں کی ایک اکثریت کو یہ اعتراض ہے کہ عورت کے حق میں جو نعرے لگائے جاتے ہیں اور بینرز پر جس قسم کی تحریر لکھی جاتی ہے وہ انتہائی شرمناک ہے۔ اس موقع پر خواتین کا رویہ غیر مناسب ہوتا ہے جو مذہبی اقدار اور مشرقی روایات کے برعکس ہے۔ عورتوں کی آزادی کے حوالے سے چند خواتین تو برسرعام الیکٹرانک میڈیا پر کچھ ایسی باتیں بھی کرتی ہیں کہ جسے سن کرتشویش ہوتی ہے کہ یہ باتیں جب برملا کہہ رہی ہوتی ہیں کہ عورت کو اس وقت تک اپنا حق نہیں مل سکتا جب تک وہ نکاح کے بندھن سے آزاد نہیں ہو جاتی۔ ظاہرہے کہ ان باتوں کا ہماری بچیوں پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔ عورت کی آزادی کے نعرے اپنے اندر کئی دلفریب پہلو رکھتے ہیں ۔ نوجوان لڑکیاں یقیناً ایک نعرہ اور مقصد میں فرق معلوم نہیں کر سکتیں ۔ اُنہیں یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ یہ نعرے ان کے حقوق کی ترجمانی کر رہے ہیں یا درپردہ کیا پیغام دیا جارہا ہے۔ باشعور لوگ سمجھتے ہیں کہ ان نعروں سے معاشرے میں بگاڑ ہی پیدا ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قران کو مرد وزن دونوں کے لیے نازل فرمایا ہے۔ جو فرائض اور ذمہ داریاں مرد پر عائد ہوتی ہیں ،وہی عورت پر بھی عائد ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مرد وزن کے حقوق بھی مقرر کیے ہیں۔ ایک ماں کی حیثیت تو باپ کے مقام سے بھی بلند ہے۔ اسلام نے ‘خاندان’ کے استحکام کا خاص اہتمام کیا ہے اور ازدواجی زندگی کو عبادت قرار دیا ہے۔ مسلم معاشرہ جس کشمکش کا شکار ہے اور اس میں عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم کرنے اور اس کے احترام کے خلاف جو مزاحمت نظر آتی ہے وہ تاریخ کے پیچیدہ رستے سے گزر رہی ہے جو ماضی کی بہتر اقدار کی نفی کرتی ہے۔ آج بڑی ضرورت یہ بھی ہے کہ ہم اپنے مسلم تشخص کو درست سیاق وسباق میں دیکھیں اور ان چراغوں کو بجھنے نہ دیں جو ہمارے بزرگوں نے روشن کیے تھے۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں کے صفایا کی مہم