(ن) لیگ پھر زرداری سے ہاتھ کرگئی

عبدالعلیم خان کی گرفتاری کے وقت ان سطور میں عرض کیا تھا اس گرفتاری کے فیصلے کو4افراد کی تائید حاصل ہے۔ وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان، اس وقت کے مشیر احتساب شہزاد اکبر، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور شہباز گل(یہ چوتھے موصوف ان دنوں وزیراعظم کے معاون خصوصی ہیں)ان 4میں سے ہر شخص کے اپنے اپنے مقاصد اور مفادات تھے۔ اعظم خان جہانگیر ترین کو ایک اور سبق سکھانا ضروری خیال کرتے تھے۔ شہزاد اکبر نے ان کے دست راست کا کردار ادا کیا۔ عثمان بزدار کا خیال تھا کہ علیم خان ان کی وزارت اعلی کے لئے مستقل اور مضبوط خطرہ ہے۔علیم خان 100دن کے لگ بھگ نیب کی تحویل میں رہے پھر رہا ہوئے۔ دوبارہ سینئر وزیر بنائے گئے۔ دوسری بار اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے ضمن میں ان کا ظاہری موقف جو بھی رہا ہو حقیقت یہ ہے کہ عثمان بزدار نے صوبے کی انتظامیہ کو دوٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ علیم خان کے ہر حکم پر عمل ان کی رضامندی سے مشروط ہوگا۔ اندر کھاتے کھچڑی پکتی رہی۔ ایک دوبار تلخی بھی ہوئی۔ علیم خان میڈیا کی دنیا میں ایک نیوز چینل خرید کر واپس آئے اور سینئر وزیر کے منصب سے مستعفی ہوگئے۔ دوسرے پراپرٹی ٹائیکون کی طرح علیم خان ہمیشہ سے یہ سمجھتے تھے کہ ذاتی میڈیا ہائوس کا ہونا بہت ضروری ہے ورنہ زرد صحافت والے اداروں کا بھتہ ادا کرتے کرتے اک عمر گزر جاتی ہے۔ یہ ساری باتیں اب پھر یوں یاد آئیں کہ علیم خان نے اگلے روز اعلانیہ طور پر (اعلانیہ اس لئے کہ قبل ازیں وہ خاموشی سے ترین گروپ کا حصہ تھے) ترین گروپ میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے گزشتہ روز گروپ کے اجلاس میں جو تقریر کی وہ بہت دلچسپ ہے۔ بہت سارے شکوئوں او رشکایات کے ساتھ تحریک انصاف کے لئے اپنی جدوجہد اور قربانیوں کا تذکرہ بھی کیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس40 ارکان پنجاب اسمبلی ہیں۔ واقفان حال کا خیال ہے کہ20سے22 ارکان بہرطور ان کے ہم خیال ہیں اوریہ وہ لوگ ہیں جو عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنائے جانے اور لاہور و گوجرانوالہ کے دو خاندانوں کی اصل حاکمیت سے نالاں ہیں۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ علیم خان کی ترین گروپ میں شمولیت موجودہ سیاسی صورتحال میں خاصی اہم ہے۔ یہ بھی کہا جارہاہے کہ چونکہ(ن)لیگ کسی تبدیلی کی صورت میں چودھری پرویزالٰہی کو پنجاب میں مرکزی کردار دینے پر آمادہ نہیں(یہ غیر آمادگی دراصل اس گروپ کی ہے جس کی قیادت مریم نواز کررہی ہیں)اس لئے (ن)لیگ جہانگیر ترین اور علیم خان سے مسلسل رابطے میں رہی ہے۔ علیم خان کا حالیہ فیصلہ ان رابطوں کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔ اسی گروپ کے شدید دبائو پر (ن)لیگ دوسری بار پرویزالہی کو وزیراعلیٰ بنانے کے ابتدائی وعدے سے پیچھے ہٹی۔ تحریر نویس کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ چودھری پرویزالٰہی نے شہباز شریف کے عشائیہ میں شرکت کا فیصلہ آخری وقت میں ان اطلاعات پر تبدیل کیا کہ مریم نواز کے ایماء پر جاتی امرا کے تین رکنی وفد نے علیم خان سے دو ملاقاتیں کی ہیں اور عدم اعتماد میں تعاون کی صورت میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی ہے۔ دوسری طرف مونس الٰہی کے توسط سے پرویزالٰہی کو وزیراعظم عمران خان کا پیغام پہنچایا گیا کہ اپوزیشن جس عہدے کا وعدہ کررہی ہے اس کے لئے ہم بھی تیار ہیں۔ ذرائع کا ہر دو اطلاعات کے درست ہونے پر اصرار رد کرنا ہماری رائے میں بلاوجہ ہی ہوگا۔ اس بات کو یوں سمجھ لیجئے کہ( ق )لیگ کے پاس پنجاب میں 10ارکان صوبائی اسمبلی میں 5آزاد ارکان میں سے3ارکان ان کے ہمنوا۔ یوں یہ تعداد13بنتی ہے لیکن دوسری طرف علیم خان کا دعویٰ 40ارکان ہے کہ مگر20سے 22 ارکان ان کے ہم خیال ہیں۔ 20کے قریب ارکان پنجاب اسمبلی جہانگیر ترین کے ساتھ ہیں۔(ن)لیگ کو کیا پڑی ہے کہ وہ آصف علی زرداری کی بات مان کر پرویزالٰہی کو وزیراعلیٰ بنوائے اور خود پس منظر میں چلی جائے۔ چودھری اور(ن)لیگ کی سیاست کا گڑھ وسطی پنجاب ہی ہے ۔ (ن)لیگ کا خیال ہے کہ پرویزالٰہی کو وزارت اعلیٰ دینے سے(ن)لیگ کو جتنا نقصان ہوسکتا ہے وہ تحریک انصاف کے پہنچائے نقصان سے زیادہ ہوگا اورثانیا یہ کہ پنجاب کی سیاست میں آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کا عمل دخل بڑھے گا۔ یہ وہ نکات ہیں جنہیں نظرانداز کرنا مشکل ہے۔ ہمارے خیال میں غلطی پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کی ہے وہ پی ڈی ایم کے اندر(ن) لیگ کے توسط سے مریم نواز گروپ کی فیصلہ سازی پر اجارہ داری کو جانتے ہوئے بھی شہباز شریف کے وعدوں کے جھانسے میں آگئے جبکہ (ن)لیگ کی داخلی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت رکھنے والا گروپ اپنی سہولت کے لئے( آپ اسے مریم گروپ کہیں یا شاہد خاقان عباسی گروپ)، پیپلزپارٹی سے کسی بھی طرح کے اشتراک عمل پر تیار نہیں اس گروپ کا موقف ہے کہ پیپلزپارٹی آج بھی ہماری اصل حریف ہے۔ بلاول کے عوامی لانگ مارچ نے پیپلزپارٹی کو جس طرح پنجاب میں متحرک و فعال کیا اس سے اس گروپ کے موقف کی تصدیق ہوتی ہے جبکہ اس گروپ کے صحافیوں، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا مجاہدین مسلسل یہ دعوی کررہے ہیں کہ پیپلزپارٹی کا عوامی لانگ مارچ جنرل باجوہ رجیم کے بدلتے موڈ کا شاہکار ہے۔ خیر اپنے سوا ہر شخص اور جماعت کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا پروردہ قرار دینے والی(ن)لیگ کی اپنی حالت یہ ہے کہ ابھی دو ہفتے قبل جناب شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی نے باری باری آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کے نئے گدی نشین سے ملاقات کی لیکن جاتی امرا نیوز کے ایک کھوجی رپورٹر نے اس ملاقات کی خبر دیتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کاذکر گول کرکے اس کی جگہ آصف علی زرداری کا نام لکھ دیا۔ ایک بات طے ہے وہ یہ کہ(ن)لیگ کسی بھی مرحلہ پر پیپلزپارٹی کو سیاسی مرکزیت (فیصلہ کن حیثیت)نہیں دے گی۔ جب بھی ایسا ہوتا دکھائی دے گا(ن)لیگ کا انقلابی دھڑا وہی حشر کرے گا جو پچھلے برس مارچ میں پی ڈی ایم کا کیا یا پھر اب پرویزالہٰی سے معاملات طے کرکے پیچھے ہٹ کر کیا۔

مزید پڑھیں:  تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے