اساتذہ کی بے چینی دور کی جائے

ہائیر ایجوکیشن کے ڈائریکٹوریٹ میں بیورو کریٹ کی تعیناتی کے خلاف پروفیسر اینڈ لیکچرر ایسوسی ا یشن کی جانب سے تحفظات ظاہر کرتے ہوئے تقرری کا نوٹیفیکیشن واپس نہ لینے کی صورت میں 31مارچ کے بلدیاتی انتخابات میں ڈیوٹی سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیاگیا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ بیوروکریسی ان شعبوں اور عہدوں پر بھی قابض ہونے کی تگ و دو میں ہے جس میں تعیناتی ان اداروں کے تجربہ کار اور کام سے واقفیت رکھنے والے عہدیداروں کا حق ہے صرف ایچ ای ڈی ہی نہیں کئی ایسے اداروں میں بیورو کریسی کنٹرول حاصل کرنے کی خواہشمند نظرآتی ہے جس کے خلاف مزاحمت اور احتجاج کے بعد ان کے نمائندوں کی تعیناتی نہ ہونا الگ بات ہے اس وقت ہائیر ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ میں بیوروکریٹ کے تعیناتی کے خلاف اساتذہ تنظیموں کی جانب سے احتجاج کی دھمکی دی گئی ہے محولہ نوٹیفیکیشن واپس نہ لینے کی صورت میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کاممکنہ طور پر بائیکاٹ ہو سکتا ہے ۔جس سے قطع نظرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اداروں اور محکمہ جات کی بہتری اور ترقی کی کنجی بیوروکریسی ہی کے پاس ہے اگرایسا ہی ہے تو جن اداروں کی سربراہی بیورو کریسی کر رہی ہوتی ہے ان کا آوے کا آوا بگڑا ہوا کیوں ہے ؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگربیوروکریسی اپنے دائرہ کار میں مثالی کارکردگی دکھانے میں ناکام ہے تو اسے دیگر اداروں کی سربراہی سونپنے کا کیا جواز ہے بہتر ہوگا کہ ہر محکمے اور ادارے کے نظام کا احترام کیا جائے اور ان اداروں کے اندر موجود اہل افراد کی میرٹ پر تعیناتی کی جائے اور ان کے ذریعے اصلاحات کی جائیں۔خواہ مخواہ کے ناکام تجربات کا اعادہ کرنے سے تضادات بڑھیں گے اور حاصل کچھ نہ ہوگا۔اساتذہ کی جانب سے جن تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کی دھمکی دی گئی ہے ان کے تحفظات دور کرکے انہیں مطمئن کیا جائے ۔
حیات آباد کوپانی فراہم کرنے کااحسن منصوبہ
پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب جبہ ڈیم سے حیات آباد کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لئے خصوصی منصوبہ تجویز کرنا بروقت اقدام ہے ۔ ہمارے نمائندے کے مطابق صوبائی حکومت سے درخوا ست کی گئی ہے کہ قبائلی اضلاع کے لئے مرتب تیز رفتار ترقیاتی پروگرام کے تحت اس منصوبے کی فیزبیلٹی کی منظوری دی جائے تاکہ اتھارٹی حیات آباد کو جبہ ڈیم سے پانی کی فراہمی کی فیزبیلٹی پر کام شروع کرے اور پی سی ون تیار کرتے ہوئے اسے منظوری کے لئے متعلقہ فورم پر پیش کیا جائے ذرائع کے مطابق مذکورہ فیزبیلٹی کی تیاری کا منصوبہ ترقیاتی پروگرام کے علاوہ منظور کرنے کی درخواست کی گئی ہے ۔ حیات آباد میں اگرچہ فی الوقت آبنوشی کا مسئلہ گھمبیر نہیں ہوا لیکن پانی کی سطح مسلسل پست ہونے سے آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ سنگین ہوسکتا ہے اس حوالے سے جبہ ڈیم سے حیات آباد کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کا منصوبہ اہمیت کا حامل ہے۔اس حوالے سے قبل ازیں بھی اس طرح کے عندیے دیئے جاتے رہے ہیں لیکن عملی طور پر کام نہیںہوا۔اب جبکہ پی ڈی اے کی جانب سے اس حوالے سے عملی اقدامات کا عزم کیا گیا ہے توقع کی جانی چاہئے کہ اس حوالے سے صوبائی حکومت اور متعلقہ محکمہ نہ صرف اجازت دینے پر اکتفا کرینگی بلکہ اس ضمن میں پشاور کے ترقیاتی ادارے کے ساتھ ہر سطح پرتعاون کرکے اس منصوبے پر عملدرآمد میں پیش رفت بھی یقینی بنائی جائے گی۔
توجہ طلب مسئلہ
شہر کے بیشتر علاقوں بشمول حیات آباد اور دیگر پوش علاقوں میں غیر قانونی ریمپ اور خود ساختہ سپیڈ بریکرز کی تعمیر کوئی پوشیدہ امر نہیں لیکن صورتحال سے مکمل آگاہی کے باوجود ٹائونز اور پی ڈی اے کے حکام ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتے ازروئے قانون شہری اپنی حدود سے باہر ایک سوتر زمین بھی اپنی ترجیح اور منشاء کے مطابق استعمال میں نہیں لاسکتے مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ آدھی سڑک بطور ریمپ استعمال ہو تی ہے جس سے گزرنے والی گاڑیوں کا راستہ محدود اور پر خطر بن جاتا ہے اس مسئلے کی طرف بار بار توجہ دلائی جاتی رہی ہے مگر اس کے باوجود نہ صرف ریمپ ہٹانے کا کوئی کام شروع نہیں ہوا بلکہ ایک آدھ مرتبہ اس حوالے سے عندیہ دے کر چپ سادھ لی گئی جس کے باعث نہ تو پرانی رکاوٹیں ہٹائی گئیں اور نہ ہی نئے بننے والے مکانات کے سامنے غیر قانونی ریمپ بنانے کا تداروک ہو رہا ہے اس مسئلے پر فوری توجہ اور اقدامات میں مزید تاخیر و تساہل کا مظاہرہ نہ کیا جائے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ شہر اور قصبات میں سڑکوں پرغیر قانونی طور پرتصرف رکھنے والے گھروں کے مالکان کے خلاف بلاتاخیر کارروائی عمل میں لائی جائے گی اور ریمپ ہٹا کر تنگ سڑکوں کی بحالی ہو گی۔شہری اداروں کے حکام اس حوالے سے جس طرح آنکھیں بند کرنے کا رویہ رکھتے ہیں اسے دیکھ کر نہیں لگتا کہ اس عوامی مطالبے پر وہ زحمت فرمائیں گے بنا بریں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور وزیربلدیات ہی کو اس عوامی مسئلے کے حل کے لئے خصوصی توجہ دینی ہو گی جس طرح شہر میں سڑکوں سے تجاوزات کے خاتمے کے لئے وقتاً فوقتاً اقدامات کئے جاتے ہیں گھروں کے سامنے غیر قانونی ریمپ تعمیر کرکے سڑک اور گلی تنگ کرنا بھی تجاوزات ہی کے زمرے میں آتا ہے جس کے خلاف بھرپور مہم کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے