سیاسی قلابازیاں اور” بارہ موسم”

ہمارے پیارے وطن کے ایک بہت ہی پیارے وزیر اعظم نے حال ہی میں کہا ہے کہ پاکستان قدرت کی نعمتوں سے بھراہوا بہت ہی اچھا ملک ہے اس ملک میں ”بارہ موسم ”ہیں۔لیکن کچھ کم ظرف لوگوں نے اسے سنجیدہ نہیں لیا اور ہنسی مذاق بنا دیا لیکن حقیقت حقیقت ہوتی ہے اور انگلی کے چھپانے سے چھپتی نہیں اسی طرح بارہ موسم کا راز بھی اب عام عوام کو کچھ کچھ معلوم ہونا شروع ہو گیا ہے ۔ پہلے پہل تو ہم سب صرف چار موسموں سے ہی واقف تھے جی ہاں گرمی ، سردی ، خزاں اور بہار۔ پھر آہستہ آہستہ دیگر موسموں کا بھی راز کھلنے لگا اور ہم سب نے دیکھا کہ وکیلوں کا موسم آیا اور انہوں نے بھرپور احتجاج کرکے اپنے آپ کو منوایا، پھر مہنگائی کا سیزن بھی سرچڑھ کر بولتا رہا ۔ہڑتالوں اور جلوسوں کا موسم بھی سال میں ایک بار ضرور آتاہے ۔ اسی طرح سیاسی موسموں میں بھی چاروں موسم ہوتے ہیں سیاسی گرمی ہوتی ہے تو ہر سیاست دان گھر سے نکل کر چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ پر سیاسی ماحول گرم کرلیتاہے جلسے ہوتے ہیں جلوس نکالے جاتے ہیں اور بڑے بڑے نعرے لگائے جاتے ہیںسیاسی کارکنوں کا لہوخوب گرم کرلیا جاتاہے اور پھر اپنی مرضی کا کام نکلواکر کارکنوں کو سیاسی بیرکوں میں واپس بھیج دیا جاتاہے۔ لیکن اگر سیاست کا موسم سرد ہوتو بڑے سے بڑا سانحہ گزر جائے کوئی چوں تک نہیں کرتا، جلسے جلوس کرنا تو دور کی بات سیاسی بیان بازی بھی نہیں ہوتی ساراماحول سردپڑجاتاہے۔ سیاسی خزاں اورسیاسی بہار صرف سیاستدانوں پر آتی ہے۔ جیسے کہ آج کل کچھ سیاست دانوں پر سیاسی بہار آئی ہوئی ہے ۔اپوزیشن جماعتیں پاکستان تحریک انصاف کی مخلوط حکومت کے خلاف جلسے جلوسوں کے ساتھ ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ میں لگے ہیں اور اس ساری کشمکش میں لوٹے سیاست دان اپنی پارٹیوں میں لوٹ رہے ہیں ۔ ان میں تازہ ترین مثال چوہدری ندیم افضل چن کی ہے کہ چند برس قبل تحریک انصاف کی سیاست کے موسم کی بہار دیکھ کر اس میں شامل ہوگئے تھے اوراپنی دیرینہ سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کو چھوڑکر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی اور اب جب کہ تحریک انصاف میں بہار کا موسم ختم ہونے کو ہے تو وہ واپس اپنی دیرینہ جماعت پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں ۔ اس شامل ہونے کے لئے باقاعدہ پروگرام ہوا ہے اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت چئیرمین سمیت دیگرخود چل کر ندیم افضل چن کے گھر آئے اچھی اور میٹھی میٹھی باتیں ہوئیں، قول و قرار ہوئے ۔ افضل چن صاحب نے اپنی سیاسی غلطی کا اعتراف کیاانہوں نے قوم کو بتایا کہ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے انہیں پیپلز پارٹی چھوڑکر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنی پڑی تاہم وہ ایک بارپھر سے جئے بھٹوکا نعرہ لگا کر میڈیا کو گواہ بناکراپنے تمام تر حمایتوں کے ساتھ واپس سے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیںاور بقول ان کے وہ واپس اپنے گھر آگئے ہیں۔اس واپسی کی خوشی میں ندیم افضل چن صاحب نے ان سب کے اعزاز میں ایک پر لطف ظہرانہ دیا ۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کے چئیرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے ندیم افضل چن کوپیپلز پارٹی میں واپس آنے پر مبارکباد دی اور انہوں نے کہا کہ اب وہ اس پارٹی کو نہیں چھوڑیں گے اور ہم مرتے دم تک ایک ساتھ رہیں گے۔ ندیم افضل چن مارچ 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف میں اسی طرح عمران خان کے ان کے گھر آنے پر شامل ہوئے تھے اور آج چار سال بعد وہ انصاف کی تحریک کو چھوڑکر پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن اپنی جگہ پر پوری کوشش کررہے ہیں کہ ان کے سیاسی موسم میں بھی بہار آئے اور وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد بنا کر موجودہ مخلوط حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاکر ایک نئے سیاسی اتحاد کی حکومت لانے کے لئے کوشاں ہیں اور اس نئے سیاسی اتحاد کی حکومت آنے کے بعد مولانا فضل الرحمن کے سیاسی موسم میں بھی بہار آجائے گی۔ اس سیاسی بہار میں نئے نئے پھول کھلیں گے اور ہوسکتاہے کہ یہ اتحاد اگلا الیکشن میں اسی طرح لڑیں اور یوں ان کی حکومت پانچ سال کے لئے آجائے۔ اب یہ اللہ کو ہی معلوم ہے کہ اس طرح کی خواہش صرف مولانا صاحب ہی کی ہے یا پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی ایسا ہی چاہتی ہے کیونکہ یہ دونوں پارٹیاں ماضی میں ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور منہ میںہاتھ ڈال کر قوم کی لوٹی ہوئی دولت نکالنے کے وعدے کرچکے ہیں۔ نوے کی دھائی میں آمر کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد ان دونوں سیاسی پارٹیوں نے کبھی بھی کسی کو جم کر پانچ سال حکومت کرنے نہیں دی اور دو، ڈھائی یاتین سال بعد ہی نئے انتخابات کروائے اور یوں یہ کرسی کا کھیل نوے کی دھائی کے آخر تک جنرل مشرف کی حکومت آنے تک جاری رہا۔
اس ساری عرصہ میں چند سیاست دان گاہے بگاہے پارٹیاں اور اتحاد بدلتے رہے ہیں۔ اب یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ میرے قارئین خود بھی بہت سیانے ہیں کہ ان سیاست دانوں کا ایک پارٹی سے دوسری پارٹی جانا اور پھر اس سیاسی پارٹی کو چھوڑکر واپس اپنی پارٹی میں آنا یا پھر کسی نئی جماعت کا حصہ بن جانا سراسر عوام کے وسیع تر مفاد میں ہوتاہے یہ سیاست دان کوئی بھی کام اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے نہیں بلکہ ملک و قوم کے لئے ہوتاہے ۔ یہ سیاسی قلابازی اپنی مفادمیں نہیں بلکہ عوام کے وسیع ترمفاد میں ہوتی ہیں۔

مزید پڑھیں:  آپریشن ۔۔''سہاڈی بس اے''