کولن پاؤل کا فون اور یورپی سفیروں کا خط

یورپی یونین کے اسلام آباد میں تعینات سفیروں کی تنظیم نے حکومت پاکستان سے ایک خط کے ذریعے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہونے والی قرارداد کی حمایت کرے ۔یورپی یونین کے نمائندوں نے یہ خط وزارت خارجہ کی بجائے اخبارات کو جاری کیا ۔اس خط پر وزرات خارجہ نے ڈپلومیٹک انداز میں احتجاج کیا مگر وزیر اعظم عمران خان میلسی میں ایک بڑے جلسہ ٔ عام میں یورپی یونین کے نمائندوں پر جم کر برسے ۔انہوںنے کہا کہ یورپی یونین نے ہمیں کیا غلام سمجھ رکھا ہے۔کیا ایسا خط آپ نے ہندوستان کو بھی لکھا ہے۔آپ نے کیا سمجھ رکھا جو آپ کہیں گے وہ ہم مانیں گے۔یورپی یونین نے کبھی کشمیر میں بھارت کا ہاتھ روکا۔پاکستان کے کسی وزیرا عظم کی طرف سے پہلی بار مغرب کو اس انداز سے للکارا گیا ۔اس سے پہلے پاکستان مغرب کے معاملے میں سوجوتے اور سو پیاز کھانے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے تھا۔امریکہ اور یورپی ملکوں کے مقابلے میں پاکستان ہمیشہ مصلحت کی پالیسی اپنائے ہوتا تھا اس سے پاکستان کے بارے میںمغرب میں ایک مخصوص تحکمانہ اور حاکمانہ مائنڈ سیٹ وجود میں آیا ۔یہ مائنڈ سیٹ اس وقت پیمانے سے چھلک پڑ اتھا جب نائن الیون کے بعد امریکہ کے وزیر دفاع کولن پاول نے نیم شبی کی ٹیلی فون کال میں جنرل پرویز مشرف سے پوچھا تھا کہ ”آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ”۔اس مختصر اوبجیکٹو ٹائپ سوال میں صرف ہاں یا ناں کی گنجائش تھی اور یوں پرویز مشرف نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔یورپی یونین کا خط بھی اسی مائنڈ سیٹ اور اسی تاثر کا عکاس تھا ۔یہ اس ٹیلی فون کال کی طرح ہی تھا مگر اس کا جواب خاصا مختلف تھا ۔شایدوقت نے پاکستان کو بہت سا سبق پڑھا لیا ہے۔ابھی یہ مظاہرہ کیا ہی نہیں تھا کہ یورپی یونین کے سفیروں نے” کولن پاؤل سٹائل” اپنا کر پاکستان کو ڈکٹیٹ کرانے کا راستہ چنا ۔یہ معاملہ اس قدر اہمیت اختیار بھی نہ کرتا او ر نہ ہی عمران خان کو بھری بزم میں انہیں جواب دینے کی ضرورت محسوس ہوتی اگر یہ خط اخبارات کو جاری نہ کیا گیا ہوتا یا ایسا ہی خط دہلی میں مقیم یورپی سفارت کاروں نے بھارتی حکومت کو لکھا ہوتا۔بھارت پر جو بھی دبائو ڈالا اسے سات پردوں میں مستور رکھا گیا مگر پاکستان کو ایک باجگزار ریاست ثابت کرنے کے لئے یوں سرعام ڈکٹیشن دینے کی پالیسی اپنائی گئی ۔یورپی یونین اور مغرب کی فالٹ لائن یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان اور بھارت کے معاملے میں دو الگ معیار اپنا رکھے ہیں ۔وہ بھارت کے معاملے میں برابری کا رویہ اپناتے ہیں اور پاکستان کے معاملے میں تحکمانہ رویہ اپناتے ہیں۔اس پالیسی نے پاکستان کی ہیئت مقتدر ہ میں ایک خاموش ردعمل کو جنم دے رکھا ہے جبکہ سیاست دانوں کی اکثریت ان معاملات پر یقین ہی نہیں رکھتی کیونکہ یورپی یونین کے کھلے خط کے جواب میں وزیر اعظم کے کھلے جواب سے پاکستان کے کچھ سیاست دانوں کا استحقاق مجروح ہوگیا اور انہوںنے قومی اسمبلی میں تحریک بھی پیش کردی۔گویا کہ یورپی یونین کا ڈرانا دھمکانا استحقاق ہے اور پاکستان کا برسرعام لب کشائی کرنا گستاخی ہے۔یوں لگتا ہے کہ عمران خان کی اس بات کو یورپ میں درست تناظر میں سمجھا گیا ۔یورپ میں سوچنے سمجھنے والے لوگ موجود ہیںاور جنہیں پاکستان اور بھارت کے بارے میں اپنی پالیسی کے جھول اور عدم توازن کا بخوبی اندازہ اور احساس ہے۔مغرب کا مزاج یہ ہے کہ ان کے آگے جھکنے کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔البتہ اپنے سامنے کھڑا ہونے والوں کو راستہ دینے میں ہی عافیت سمجھا جا تا ہے ۔عمران خان کی طرف یورپی یونین کی کلاس لینے کے دوسرے روز ہی یورپی یونین کے صدر نے ان سے ٹیلی فون پر بات کی اور یوکرین میں جنگ بندی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو کہا۔عین اسی روز برطانیہ کے رکن پارلیمنٹ جونی مرسرنے وزیر اعظم بورس جانسن کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ یوکرین پر حمایت کرنے کی پاداش میں برطانیہ کی طرف سے بھارت کو سالانہ دی جانے والی پانچ کروڑ پاونڈ کی مالی امداد روک دی جائے ۔رکن پارلیمان نے کہا بھارت نے یوکرین کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے دواجلاسوں میں روسی حملے کے خلاف ہمارا ساتھ نہیں دیا ۔ہم بھارت کو امداد کے طور پر پانچ کرور ترپن لاکھ پاونڈ کی جو گرانٹ دیتے ہیں اسے روک دیا جائے ۔اب جبکہ پوتن کے دوستوں پر پابندیاں لگانے کا وقت آگیا ہے تو یہ عطیہ بھی ختم کردیا جائے ۔برطانوی رکن پارلیمان کا یہ فوری ردعمل بتارہا ہے کہ یورپ کے صاحب الرائے لوگوں نے عمران خان کے لہجے کے کرب ،دکھ اور تلخی کے آئینے میں ایک نظر اپنے اوپر ڈالی ہے اور انہیں اپنی پالیسی کے جھول کا کسی حد تک انداز ہ ہوا ہے۔یورپی یونین کے پردے میں یہ امریکہ کو ہی پیغام تھا کہ پاکستان اب مغربی سفیر وں کو ” وائسرائے ”سمجھنے کی غلامانہ روش چھوڑ چکا ہے۔

مزید پڑھیں:  آپریشن ۔۔''سہاڈی بس اے''