سرائیکی وسیب کے لوگوں کیلئے نیا لولی پاپ

آئینی ترمیم کیلئے حکمران اتحاد کے پاس مطلوبہ اکثریت نہیں ہے اپوزیشن سے بات کرنے کو وزیراعظم اپنی توہین سمجھتے ہیں ایک سے زائد بار وہ اس کا اظہار بھی کر چکے ، اسی طرح صوبائی وسائل کی تقسیم، صوبوں کے وفاق کے وسائل میں حصے، نئے صوبے کی جغرافیائی حدود ان سب کے لئے آئینی ترمیم سے قبل قانونی تقاضے پورے کرنا ہوں گے اس کے ساتھ ساتھ قوم پرستوں کے اس مطالبہ کو بھی مدِ نظر رکھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے سال دوہزار دو کے بعد سرائیکی وسیب میں بننے والے ڈومیسائل منسوخ کئے جائیں ان کے خیال میں ایک منصوبے کے تحت دولاکھ کے قریب جعلی ڈومیسائل بنوائے گئے جس سے مقامی لوگوں کی ملازمتوں پر باہر کے لوگ قابض ہوگئے ۔ نئے صوبے کے قیام کے لئے آئینی بل لانے کے ضمن میں وزیراعظم کے حالیہ اعلان کے بعد یہ بھی دیکھنا سمجھنا ہوگا کہ کیا باقی ماندہ پارلیمانی مدت میں صوبائی اسمبلی کی قرارداد اور قومی اسمبلی میں آئینی بل لانے سے قبل یہ سارے مراحل طے کرلئے جائیں گے جنکا بالائی سطور میں تذکرہ کیا ہے ؟ ہماری دانست میں حکومت کو کسی تاخیر کے بغیر ابتدائی دو کام کرنا ہوں گے اولا پنجاب اسمبلی سے نئے صوبے کے قیام کے حق میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ قرارداد کی منظوری، ثانیا باونڈری کمیشن کا قیام اور اس کے ساتھ ہی وسائل اور دیگر امور میں سے نئے صوبے کے حصے کی قانونی فراہمی۔ آئینی بل سے قبل یہ امر بھی طے کرنا ہوگا کہ کیا دستور میں سینیٹ میں صوبوں کی نمائندگی کے موجودہ حجم کو ازسرنو ترتیب دینا ہے یا آئینی ترمیم کے ذریعے اس میں اضافہ کرنا ہوگا۔ یہ وہ نکات ہیں جنہیں نظرانداز کرکے آگے بڑھنا ازبس مشکل ہے کیونکہ محض ایک جلسہ عام میں کی گئی تقریر سے آئینی بل منظور ہونا ہے نہ صوبہ بن جانا ہے۔ حکمران قیادت کو چاہئے کہ کسی تاخیر کے بغیر پہلے خود طے کرے کہ اسے کرنا کیا ہے بعدازاں دوسری پارلیمانی پارٹیوں سے مشاورت، اگلے عام انتخابات سے قبل اگر نیا صوبہ بنانا مقصود ہے تو پھر مندرجہ بالا دونوں کاموں کے ساتھ دیگر امور طے کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پنجاب اسمبلی میں قرارداد اور قومی اسمبلی میں آئینی بل لانے کے مرحلہ میں ان پارلیمانی جماعتوں کی حقیقت بھی عوام پر دوچند ہوجائے گی جو سیاسی طور پر الگ صوبے کے قیام کے حق میں بات کرتی ہیں۔ اس امر پر دو آرا نہیں کہ جنوبی پنجاب (سرائیکی وسیب)صوبے کا قیام اس وسیب کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ محرومیوں، مسائل اور استحصال کا شکار وسیب کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ الگ صوبائی شناخت سے ان کے مسائل حل ہوں گے اور یہی ان کے مفادات کے تحفظ کا واحد ذریعہ بھی ہے۔ صوبہ بنانا بچوں کا کھیل بھی بالکل نہیں اس کے لئے قانونی سیاسی و سماجی تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ اس کے لئے مرحلہ وار ہر کام خلوص اور زمینی حقائق کی روشنی میں ہی مکمل ہونا چاہئے۔ وسیب کے عوام نے پچھلے انتخابات میں صرف اور صرف نئے صوبے کے قیام کے وعدے پر تحریک انصاف کو ووٹ دیئے تھے۔ اخلاقی اور سیاسی طور پر یہ تحریک انصاف کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ نئے صوبے کے قیام کے لئے تمام قانونی تقاضے اور دوسرے امور آئندہ انتخابات سے قبل طے پا جائیں ۔ ہم پیپلزپارٹی اور دیگر جماعتوں سے یہ توقع ہی کرسکتے ہیں کہ وہ نئے صوبے کے قیام کے لئے کی جانے والی کوششوں(اگر یہ واقعی شروع ہوں ) کو کامیابی سے ہمکنار کروانے کے لئے اپنے حصے کا کردار بخوبی ادا کریں گی اور محض اس لئے رکاوٹ نہیں بنیں گی کہ کریڈٹ کسی اور کوکیوں ملے۔ مکرر اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ سرائیکی صوبے کی جغرافیائی حدود کے حوالے سے لوگوں اور قوم پرستوں کے دیرینہ مطالبہ کو نظر انداز کرنے سے مسائل پیدا ہوں گے وسیب کے لوگ اور قوم پرست جماعتیں لگ بھگ نصف صدی سے صوبے کا جو مجوزہ خاکہ پیش کرتے آرہے ہیں یہ حرف آخر نہ بھی ہو تو بھی اس مرحلہ پر اس پر بات کیئے بغیر ایک قدم آگے بڑھنے سے مسائل پیدا ہوں گے ان مسائل سے بچنے کا واحد راستہ کسی تاخیر کے بغیر باونڈری کمیشن کا قیام ہوگا کیونکہ قوم پرستوں کامطمع نظر کبھی بھی تین ڈویژنوں پر مشتمل صوبہ نہیں رہا وہ روز اول سے اپنی قدیم تہذیبی اور قومی شناخت پر مبنی صوبے کے قیام کا مطالبہ کرتے آرہے ہیں ، سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیجے کہ قوم پرست رنجیت سنگھ کے لشکر کے ہاتھوں پامال ہوئی ریاست ملتان سابق ریاست بہائولپور اور ڈیرہ جات پر مشتمل سرائیکی صوبہ چاہتے ہیں ان سے بات کرنا اس لئے ضروری ہوگا کہ اگر انہیں نظرانداز کیا گیا تو صوبہ تحریک اعتدال پسندوں کے ہاتھوں سے نکل کر انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتی ہے ایسا ہوا تو سنگین مسائل جنم لیں گے ، ”ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں ”۔

مزید پڑھیں:  میزانیہ نہیں سیلاب بلا