تحریک عدم اعتماد اورخدشات

تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے ساتھ وزیر اعظم کو جہاں مرکزمیں ا پنے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کی مشکل آں پڑی ہے وہاں پنجاب کے وزیراعلیٰ کے خلاف بغاوت گروپ بندی اور اس کے مرکزی سیاست پر اثرات کو سنبھالنے ا ور اسی چیلنج کا بھی وزیر اعظم اکیلے ہی مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کا سیاسی قد اور بصیرت اتنا نظر نہیں آتا کہ وہ اپنے صوبے کو سنبھال سکیں ان کے حوالے سے وزیر اعظم روز اول سے تاایندم مشکلات اور تنقید کا شکار رہے ہیں لیکن ہنوز وزیر اعظم کی سرپرستی ان کو حاصل ہے جس سے قطع نظر ملک میں جہاں سیاسی دائو پیچ اور ملاقاتیں آئے روز صورتحال کی تبدیلی کا باعث بن رہی ہیں ہر تھوڑی دیر بعد سیاسی چال چلنے سے کروٹ بھی تبدیل ہوتی ہے اور یہ سلسلہ مرکز میں تحریک عدم پر ووٹنگ تک جاری رہنا فطری امر ہو گا ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ سیاسی عمائدین کے لب و لہجہ درشت اور قوت برداشت میں کمی سیاسی فضا کو مکدر کرنے کا باعث بن رہا ہے جو ملکی سیاست کے لئے نیک شگون نہیں بہرحال اس سے قطع نظر عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ کے دن کے حوالے سے حکومت نے جو حکمت عملی مرتب کی ہے اس کی کمزوری اپنی جگہ اس سے ایک آئینی وقانونی بحث الگ امر ہے اس طرح کا طریقہ کار اختیارکیاگیا تو تصادم و انتقام کی نوبت آسکتی ہے ۔ حکومت کی جانب سے اختیارات و طاقت کے ممکنہ استعمال کے جواب میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی جوحکمت عملی نظر آتی ہے سیاسی اور انتظامی طور پر یہ پریشان کن امر ہے ۔جس بات کا عندیہ دیا جارہا ہے وہ یہ کہ سپیکر قومی اسمبلی کو ممکنہ طور پر کسی اقدام کا مشورہ دیا جارہا ہے اصولی طور پر قانون کی تشریح اور اس پر عملدرآمد کے معاملات کا جائزہ لینا عدالت عظمیٰ کی ذمہ داری ہے سپیکر کو صرف قوانین کے مطابق ایوان کی کارروائی کو آگے بڑھانا ہوتا ہے حکمران جماعت تحریک انصاف نے اپنے ارکان کو تحریک عدم اعتماد کے لئے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہ جانے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل63اے کی جو تشریح ہو رہی ہے وہ حیران کن ہے حکومتی حکمت عملی کے تحت ان کے اراکین تحریک عدم اعتماد کے اجلاس کے روز ووٹنگ میں حصہ لینے کے لئے ایوان میں نہیں جائیں گے۔ آئین میں آرٹیکل63اے 2010میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا جس کا مقصد ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنا تھا۔اگر کوئی پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو پارٹی سربراہ اپنے رکن سے وضاحت طلب کرے گا اور اس کی وضاحت سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اسے منحرف قرار دے کر تحریری طور پر پریذائیڈنگ افسر اور الیکشن کمیشن کو آگاہ کرسکتے ہیں اور یہی تحریری نوٹس متعلقہ رکن کو بھی بھیجا جائے گا۔ پریذائیڈنگ افسر دو دن میں معاملہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجیں گے اور اگر وہ دو دن میں معاملہ ریفر نہیں کرتے تو وہ ریفرشدہ ہی سمجھا جائے گا۔چیف الیکشن کمشنر اسے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھیں گے جو30دن میں اس پر فیصلہ کرے گا۔ انحراف ثابت ہو جانے کی صورت میں متعلقہ رکن کی اسمبلی رکنیت ختم کر کے اس کی سیٹ خالی قرار دے دی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 30روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔اس واضح طریقہ کار کے خلاف اگر کوئی طریقہ اختیار کیا جائے اور اراکین کو روکنے اور ان کے ووٹ دینے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کسی طور بھی قانون کے مطابق عمل نہیں ہو گا۔حزب اختلاف کی جانب سے بھی ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کی پوری تیاری ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے لئے بھی حکمت عملی طے کرلی ہے جس کے تحت تمام ارکان کو مختلف گروپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ حکومت یا سرکاری اداروں کی جانب سے کسی بھی رکن کے خلاف اگر کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور اس رکن کی گرفتاری یا حراست کا کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو اس سلسلے میں بھی منصوبہ بندی طے کرلی گئی ہے۔ ضرورت پڑنے پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے انصار الاسلام رضاکاروں کو سکیورٹی پر مامور کیا جائے گا۔ اسی تناظر میں اپوزیشن کے اہم قانونی ماہرین بھی تیاری رکھیں گے تاکہ ایسی کسی کارروائی کی صورت میں عدالت سے رجوع کرکے ریلیف حاصل کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن ارکان کو اپنی اپنی رہائش گاہوں تک محدود رہنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ جو منظر نامہ محولہ تیاریوں کے حوالے سے سامنے ہے اس میں ایک جانب ممکنہ طور پر اختیارات کا غلط استعمال اور قانون کی غلط تشریح کا امکان ہے تو دوسری جانب انتشار اور تصادم کے امکانات واضح ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ حکومت کے منحرف اراکین کے غائب ہونے کا چرچا ہے اور حکومت ان کو ڈھونڈ رہی ہے بعض اطلاعات کے مطابق یہ افراد ممکنہ طور پر سندھ میں کسی محفوظ مقام پر ہوں گے جس کا واضح مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ یہ افراد ممکنہ طور پر عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کریں گے ان عناصر کی حوالے سے محولہ اطلاعات و امکانات کس حد تک درست ہیں یا غلط اس سے قطع نظر اصل امر اراکین اسمبلی کو آزادانہ بنیاد پر ووٹ دینے کے حق کا ہے کسی بھی فعل کے ارتکاب سے قبل کوئی قانون لاگو نہیں ہوتافلور کراسنگ کے حوالے سے واضح قوانین اور اس پر عملدرآمد کے حوالے سے آئینی اور قانونی فورم موجود ہیںجن کا احترام ملحوظ خاطررکھا جانا چاہئے جہاں تک سپیکر قومی اسمبلی کے ممکنہ کردار و عمل کا سوال ہے حتمی طور پر تواس حوالے سے فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہو گاالبتہ اتنی بات ضرور ہے کہ حزب اختلاف قبل ازیں بھی مختلف مواقع پر سپیکر قومی اسمبلی پر جانبداری کے الزامات پہلے ہی لگاتی آئی ہے اور ان کے بعض فیصلوں پرحزب اختلاف کو تحفظات ہیںکم از کم ایک مرتبہ کا معاملہ خاص طور پر قابل ذکر ہے ان تمام امور سے قطع نظر جن امکانات اور خدشات کا ا ظہار کیا جارہا ہے توقع کی جانی چاہئے کہ اس کی نوبت نہ آنے دی جائے گی اور آئین و دستور میں موجود طریقہ کار کے تحت تحریک عدم اعتمادنمٹا دی جائے گی۔قانون پر عملدرآمد اور ایوان کو ضابطے کے مطابق چلانا سپیکر قومی اسمبلی کی آئینی ذمہ داری ہے بطور سپیکر آئین و دستور ان سے غیر جانبدارانہ کردار کا متقاضی ہے جس پر تحریک عدم اعتماد کے ممکنہ نتائج سے بالاتر ہو کرسپیکر کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ملک ایک بحران سے نکل کر دوسرے بحران میں داخل نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  میزانیہ نہیں سیلاب بلا