نئی سیاسی بساط اور پرانی چالیں

آج آپ کہیں بھی چلے جائیں اور کسی سے بھی ملیں تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ یہ کیا تماشا ہے اور کیا سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ ہر ایک اپنے ہی طور پہ سیاسی منظر کو نمایاں کرنے اور اسے اپنے من پسند رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جا چکی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کی تبدیلی کے لیے پُر امید ہیںاور یہ یقین دہانی کی ہے کہ انہیں اپنی کامیابی کے لیے مطلوبہ ارکان اسمبلی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ اپوزیشن کی آخری واردات ہے اور انہیں ایسی شکست ہوگی کہ چھ برس تک اٹھ نہیں سکیں گے بلکہ اس تحریک کی ناکامی کے بعد حکومت مزید تگڑی ہوکر آئے گی۔ پیپلز پارٹی اپنا لانگ مارچ مکمل کرچکی ہے۔ ان کے رہنما عدم اعتماد کی تحریک کو اگرچہ ایک مشکل ہدف قرار دے رہے ہیں مگر وہ وزیر اعظم کے خلاف اپنے پرانے موقف پہ ڈٹے ہوئے ہیں۔
اپوزیشن نے عدم اعتماد کے مسودہ میں اپنے پرانے بیانات کا اعادہ کیا ہے کہ حکومت کے پاس معاشی بحرانوں سے نکلنے کا کوئی مثبت لائحہ عمل نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک اقتصادی زبوں حالی کا شکارہو چکا ہے۔سیاسی عدم استحکام نے غیریقینی صورتحال پیدا کر رکھی ہے اورخارجہ پالیسی بھی ناکام ہو چکی ہے ۔ اسی باعث قائد ایوان ملک میں اکثریت کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ حکومت اس تحریک کا سامنا کرنے کو تیار ہے۔
ہمارے ہاں یہ پہلی بار نہیں ہو رہا۔یہ محض اقتدار کی جنگ ہے اور ماضی میں ایسی سیاسی جنگوں کے بڑے تلخ نتائج سامنے آتے رہے ہیں۔ عام انتخابات بھی دور نہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اب مختصر وقت میں ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیے جس سے جمہوریت کو نقصان کا اندیشہ ہو عوام کو جمہوری نظام پر اعتماد ہے اور تمام باشعور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دُنیا کے اس مقبول نظام کی خوبی ہے کہ وہ اپنے نمائندوں کا بھرپور احتساب کر سکتے ہیں۔ نمائندے اپنے لوگوں کو جوابدہ ہوتے ہیں۔ ہاں ہماری سیاسی تاریخ اتنی روشن اور خوشگوار نہیں رہی کہ یہاں جمہوریت مخالف قوتوں نے اس کی خوب بیخ کنی کی ہے اور جمہوری سفر رکاوٹوں کا شکار رہا۔ جمہوری روایات کو برقرار نہ رکھا جا سکا۔ لیکن اس کے باوجود عوام اسی نظام کے تحت اپنے نمائندوں کے انتخاب میں دلچسپی رکھتی ہے اور کسی قوت کی مداخلت کے بغیر جمہوری سفر کا تسلسل چاہتی ہے۔ یہ بجا کہ بہت سے نمائندوں کی نا اہلی’ بد عنوانی اور اقرباپروری پہ انگلیاں اٹھیں ۔ اقتدار کی خاطر وفاداریاں تبدیل ہوتے اور خرید و فروخت کے کاروبار میں ملوث ہوتے دیکھا گیا ۔ جمہوری راستوں پہ چلنے کی بجائے آمریت کی آڑ میں آگے بڑھنے بلکہ ان کے ہاں پرورش پانے والے عناصر بھی نظر کے سامنے رہے۔ ان عناصر کا کردار بھی ڈھکا چھپا نہیں جو غیر جمہوری عمل کی پشت پناہی کرتے رہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت صرف طرزِ زندگی نہیں بلکہ صدیوں سے جاری ناانصافیوں کے بتدریج خاتمے کی ایک پرامن صورت ہے۔ جمہوریت کا ایک وصف یہ ہے کہ نقاب دار چہروں سے نقاب ہٹاتی رہتی ہے۔ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جمہوریت کے پرپیچ سفر میں جو جماعتیں نظریہ رکھتی ہیں ، جاگیرداری کے خلاف ہیںتو ان کی سیاسی قوت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ جماعتیں جو آج اقتدار کے حصول میں پنجہ آزمائی کر رہی ہیں،ان سب کا ایک ہی منشور ہے اور اس میں کسی ایک کے پاس ملک کی اکثریت کے گلے سے جاگیرداری کا طوقِ غلامی اُتارنے اور ذہن سازی و سیاسی شعور کی بیداری کا کوئی منصوبہ نہیں۔ اس کا یہ نتیجہ ہے کہ عوام کسی نظرئیے کی بنیاد پر یا کسی جماعت کی قومی و خارجہ پالیسی کو دیکھ کر ووٹ دینے کی بجائے صرف اپنی گلی کوچوں کی مرمت’نوکری ‘پیسہ اور بجلی فراہم کرنے والوں کا انتخاب کرتی ہے۔ جماعتوں کا یہ حال ہے کہ ابھی موجودہ حکمران جماعت کا وقت پورا نہیں ہوا کہ اچانک تمام سیاسی قوتیں متحرک ہو گئیںاور یہ انتظار بھی نہ کیا کہ وہ عنقریب اپنے سیاسی انجام سے دوچار ہونے والے ہیں۔ اب ایسے میں اگرتحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو تی ہے یا نہیں ہوتی ‘ کوئی اقتدار میں رہتا ہے یا نہیں رہتا تو گزشتہ کئی دہائیوں سے جمہوریت کے نام پر جمہوریت کشی کی ان چالوں اور اقدامات سے عوام کے لیے کوئی امید افزا نتائج نہیں نکلے۔ایسا کیا متبادل فارمولہ ہاتھ آگیا ہے کہ اس بار حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی عوام کے مشکل حالات بھی اس کے ذریعے تبدیل ہو جائیں گے ۔اب یہ قوم مزید تجربات کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ کرپشن کے واویلے اور چوروں کو پکڑنے والے بیانات میں اب کوئی کشش باقی نہیں رہی۔ انتخابات میں نئے چہروں کے لیے شاید کوئی نیا نعرہ ایجاد ہو رہا ہو۔ اہل سیاست کو چاہیے کہ وہ اپنی فہم و فراست سے عوام کی مشکلات کو حل کریں، خارجہ پالیسی کی نئی جہت پر متوجہ ہوں، کمزوروں اور زیر دستوں کے حقوق کا محافظ بنیں، سیاسی مخالفین کے مقابلے میں اخلاقی طور پر اعلیٰ تر نظر آئیں ‘ محلاتی سازشوں سے دور رہیں۔ آخر یہی وہ باتیں ہیں کہ جن کی بنیاد پر قومی تشکیل نو اور عوامی بالا دستی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے