سیاسی کشیدگی کو بڑھایا نہ جائے

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے سیاسی سرگرمیوں میں تیزی تو فطری امر ہے لیکن متحمل سیاستدان مولانا فضل الرحمان کا لب و لہجہ پہلی مرتبہ تیز ہو جاناسیاسی درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ ملکی ماحول کو بھی گرمانے کا باعث ہے ۔بلاول بھٹو زرداری بہرحال نوجوان سیاستدان ہیںان کا وزیر اعظم کی دھمکی پر ردعمل میںجذباتی ہونا اچھنبے کی بات نہیںبیانات کی گرما گرمی سے قطع نظر پارلیمنٹ لاجز میں اسلام آباد پولیس کے دھاوے کے بعد ملک میں تصادم کا خطرہ بڑھ گیا تھابلکہ ایک آگ بھڑک اٹھی تھی جسے راتوں رات کی سوچ بچار یا پھر کسی دانشمندکے مشورے پر گرفتار اراکین پارلیمان اور کارکنوں کو رہا کرکے ٹھنڈا کیا گیا لیکن اس سے پیدا شدہ حرارت بہرحال کافی دنوں تک محسوس ہوتی رہے گی۔پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے قبل اسلام آباد میں ملکی تاریخ کاسب سے بڑا جلسہ ہو گا۔وزیر اعظم اور ان کی جماعت کی سیاسی حکمت عملی سے قطع نظرحکومتی اور انتظامی نکتہ نظر سے یہ فیصلہ باعث حیرت اس لئے ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کی ہمیشہ کوشش رہتی ہے کہ امن وامان کا مسئلہ پیدا نہ ہو اور اضافی انتظامات کی ضرورت نہ پڑے جاری حالات میں جب خود حکومتی اداروں کی جانب سے دہشت گردی کے خطرات سے آگاہی دے کر احتیاط کے مشورے دیئے جارہے ہیں ایسے میں اس قدر بڑا اجتماع وفاقی دارالحکومت میں ہونے دینا یا کرنا امن و امان کے حوالے سے اور خود کارکنوں کی سکیورٹی کے حوالے سے کیا مناسب ہو گا اس کی حکمت بہرحال وہی بہتر جانتے ہوں گے جہاں تک تحریک عدم اعتماد سے پہلے اسلام آباد میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کرنے کی سیاسی ضرورت کا سوال ہے اس سے کہیں نہ کہیں حکومتی اعتماد میں کمی ظاہر ہوتی ہے اور وہ کارکنوں کو بڑے پیمانے پر اسلام آباد لا کر اپنی پوزیشن اور مقبولیت ظاہر کرنے کی نفسیاتی سعی میں ہے حالانکہ اس کی فی الوقت کوئی ضرورت نہیں بلکہ بجائے اس کے کہ حکومتی اراکین اور عمائدین سیاسی اجتماع کے انعقاد پر توجہ دیںان کو اپنی ساری صلاحیتیں تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے لئے صرف کرنی چاہئے بالفرض محال جلسہ تو بڑا ہوتا ہے مگر تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ موافق نہیں نکلتا تو پھر اس اجتماع کا حاصل کیا ہوگا۔بڑے پیمانے پر سیاسی کارکنوں کو اسلام آباد لانا کسی ممکنہ تصادم کے خطرات بھی پیدا کر سکتا ہے حکومت ایک جانب ایک سیاسی جماعت کے چند غیر مسلح رضا کاروں کی اسلام آباد میں موجودگی برداشت نہیں کر پا رہی ایسے میں خود اتنے بڑے اجتماع کی تیاری سے کیا تاثر لیا جائے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد پرووٹنگ کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے ارد گرد کے علاقے جس قدر پرسکون اور زندگی معمول کے مطابق رواں ہو گی اتنا ہی بہتر ہوگا ۔ توقع کی جارہی ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس آمدہ ہفتے کے اوائل میں طلب کیاجائے گا اختتام ہفتہ سیاسی بازار کی رونق کے عروج کے ساتھ کشیدگی کا جن بھی سرچڑھ بول رہا ہے ۔سیاسی سرگرمیاں جمہوریت کا حصہ ہوتی ہیں مگر سیاست کے قواعد و ضوابط اور حدود و قیود بھی ہیں سیاسی رہنمائوں کو اصولی طور پر نہ صرف اپنے جذبات اور زبان پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ نہایت محتاط اور ذمہ داری و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔سیاست اور جمہوریت میں بندوق اور اینٹ کا جواب پتھر نہیں ہوا کرتے بلکہ سیاسی چالیں اور جوڑ توڑ کے ذریعے مخالفین کو جواب ہوتا ہے ۔جے یو آئی کے رضا کار وں کی پارلیمنٹ لاجز میں موجودگی سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو پولیس اور انتظامیہ نے وہاں داخل ہونے کیوں دیا ان لوگوں کو اگر پہلے ہی کسی جگہ روک لیا جاتا توپارلیمنٹ لاجز میں مسلح پولیس کو گھسنے اورخلاف قانون حرکت کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی بدقسمتی یہ ہے کہ ہر جانب کشیدگی اور غصے کا عالم ہے الفاظ نامناسب ‘ لہجہ تلخ اور جذبات مشتغل ہیں ایسے میں ذرا سی بے احتیاطی ملک میں امن و امان ہی کے لئے نہیں اس نظام کے لئے بھی بدنامی کا باعث بلکہ خطرہ تک ثابت ہو سکتا ہے اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ ہر طرف کشیدگی پر مبنی ماحول ہے کوئی بھی ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ایسے میں کس کس کو احتیاط کی تاکید کی جائے جب وزیر اعظم ہی جذبات میں آکر اپنے عہدے کے تقاضے ہی بھلا دیں تو باقی کیا بچتا ہے ۔اس وقت حکومت اور حزب اختلاف دونوں کی سیاسی دلچسپی اور ذمہ داری تحریک عدم اعتماد پر ہی توجہ مرکوز کرنے میں ہے حزب اختلاف نے تحریک عدم اعتماد کی صورت میں جو سیاسی فیصلہ کیا ہے اس میں کامیابی ہی ان کے حق میں بہتر ہے جبکہ حکومت کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ اس کی جانب سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جسے انتقام یا پھر سیاسی کمزوری پر محمول کی جا سکے حکومت کے پاس ووٹ پورے ہیں تو اسے کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اعتماد کے ساتھ حالات کو پرامن اور معمول پر رکھ کر اور آئین و دستور کے مطابق پارلیمان کے اجلاس میں حزب اختلاف کو عددی اکثریت سے شکست دینی چاہئے جبکہ حزب ا ختلاف جس قسم کے دعوے کر رہی ہے اور عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے لئے ضرورت سے زیادہ پر اعتماد دکھائی دیتی ہے اسے بھی پارلیمان کے اندر حکومت کی شکست پراپنی سرگرمیاں مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے حکومت اور حزب ا ختلاف دونوں کوچاہئے کہ وہ محاذ آرائی سے گریز کریں’ انتشار سے گریز کی اس وقت جتنی ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی توقع کی جانی چاہئے کہ گزشتہ روز کے واقعات کے بخیر و خوبی انجام پذیر ہونے کے بعد ماحول کو معمول پر لانے میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں اپنا کردار ادا کریں گے ۔

مزید پڑھیں:  مرے کو مارے شاہ مدار