جغرافیائی اقتصادی اہداف کا حصول کیسے ممکن؟

چند ماہ قبل پاکستان کی نئی قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا گیا، یہ پیشرفت 11 سال کے وقفے کے بعدسامنے آئی، نئی پالیسی کے تحت ملک کی خارجہ پالیسیاں کا معاشی ترقی کی سمت تعین کیا گیا ہے ۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس نئی حکمت عملی کی تائید کی ہے، جس سے خطے میں طاقتور ممالک کے سکیورٹی مفادات کے تحفظ کے لئے پاکستان کا کردار ختم ہو جائے گا، اسی طرح وزیر اعظم عمران خان نے متعدد مواقع پر موسمیاتی تبدیلی، غذائی عدم تحفظ اور معاشی کمزوری کو پاکستان کو درپیش حقیقی خطرات قرار دیا ہے، جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان سے صرف غیر روایتی سکیورٹی اقدامات بروئے کار لا کر جیساکہ ٹیکنالوجی، علاقائی روابط اور معاشی ترقی کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے۔ ایک عرصے سے پاکستان کثیرالجہتی امدادی اداروں سے قرضوں پر انحصارکر رہا ہے،کسی نہ کسی وجہ سے ہر سبکدوش ہونے والی حکومت خزانہ خالی کر جاتی ہے اور آنے والی حکومت کے پاس غیر ملکی ذخائر کو بھرنے کے لئے آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ لئے گئے قرض اور بجٹ کے کچھ حصوںکا آڈٹ نہ ہونے کے باعث یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ قرض کیسے اور کہاں استعمال ہوا ہے؟۔یہ صورتحال اس وقت پریشان کن بن جاتی ہے جب ہمیں رقوم ملنے کے باوجود ملکی معیشت شاید ہی کبھی مشکلات سے نکل سکی ہو، مزید یہ کہ قرض پر انحصار کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے، بہت سی خارجہ پالیسیاں جن پر پاکستان نے عمل کیا خاص طور پر 1977 سے جنگوں میں ہماری شمولیت ایک ایسا پریمیم تھا جو ہم نے پیسے کے نلکے کو چلانے کے لیے ادا کیا۔ اگرچہ جغرافیائی اقتصادی اہداف کے تعاقب میں پاکستان نے اس وقت عالمی میدان (جو اس وقت جنگ کا شکار ہے) میں غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اپنے پہلے دورے پر روس جانے سے قبل روسی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔ اس کے علاوہ جب جنرل باجوہ یہ کہتے ہیںکہ پاکستان کو چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تناظر میں دیکھنا گمراہ کن ہے، تودراصل وہ یہ پیغام دیتے ہیںکہ پاکستان ایک آزاد خارجہ اور اقتصادی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا سفارتی طور پر غیر جانبدار رہنا جغرافیائی اقتصادی اہداف کے حصول کے لیے کافی ہے اور پاکستان کو اپنے اقتصادی اہداف پر پیش رفت کے لئے کیا کرنا پڑے گا؟ تو اس کے لئے سب سے پہلے پاکستان کو مستحکم سیاسی اور معاشی صورت حال درکار ہوگی۔ سیاسی بے یقینی کی صورت حال ایک ایسی معیشت کے لئے نقصان دہ ہے جو پالیسیوں میں اکثر تبدیلیوں کی وجہ سے پہلے ہی سرمایہ کاروں کے لئے غیر پر کشش بن چکی ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ حکومت نے تین سال میں چار وزرائے خزانہ کو تبدیل کیا ہے، اس کے علاوہ یہ حدود بھی طے ہونی چاہئیں کہ عدلیہ انتظامی اور سیاسی معاملات میں کس حد تک مداخلت کر سکتی ہے، دیکھا جائے تو عدلیہ اور عدالتی عمل کسی ملک کے معاشی نظسم و نسق پر پانچ طریقوں سے اثرانداز ہوتا ہے،ان میں پہلا،قانون کی حکمرانی قائم کرنا، دوسرا جوابدہی کے موثر عمل کو یقینی بنا نا،تیسرا معاہدوں کے نفاذ اور تحفظ ،چوتھا افراد اور املاک کیلئے تحفط کی فراہمی اور پانچواں معاشرے میں غریب اور کم مراعات یافتہ افراد کو انصاف کی مساوی رسائی دینا شامل ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بابر ستار کے مطابق پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی تاریخ قابل افسوس ہے کہ قانون اور اس کے عمل کو مسابقتی طاقتور اشرافیہ کے درمیان سمجھوتوں کے لئے استعمال کیا گیا، جیسا کہ صحیح اور غلط کی سرحدیں متعین کرنے کے برخلاف ہے۔ قصورواروں کو حساب دینا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ قانون کو انصاف کے ذریعے کے طور پر نہیں بلکہ طاقتوروں کو فائدہ پہنچانے کے ایک ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں، ہمارا چیک اینڈ بیلنس کا نظام نہ تومضبوظ ہے اور نہ ہی فعال ہے ۔ پاکستان کو پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنانی بھی ہوگی اور بین العلاقائی تجارت اور روابط کو فروغ دینا ہوگا۔ اس سلسلے میں پاکستان کو غیر نتیجہ خیز علاقائی تنازعات میں مداخلت کرنے سے پہلے اپنے معاشی مفادات کو محفوظ بنانا چاہیے، یقیناً کشمیر کا معاملہ بھی اہم ہے تاہم بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کی بحالی بھی دو طرفہ رابطے کی نئی راہیں کھولنے کے لیے اتنی ہی اہم ہے،یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے تجارت اور سرمایہ کاری داؤد رزاق نے بھی پاکستان کے مایوس کن تجارتی اعداد و شمار کو بہتر بنانے کے لیے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرنے کی تجویز دی ہے۔
(بشکریہ ،عرب نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  میزانیہ نہیں سیلاب بلا