نئے بس سٹینڈ کی تعمیر، ضرورت و افادیت

وزیر اعلیٰ محمود خان کی جانب سے پشاور میں سردار گڑھی کے مقام پر نئے جنرل بس سٹینڈ کا سنگ بنیاد رکھے جانے کو ایک نیک شگون قرار دینے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے پشاور میں بڑھتی ہوئی آبادی اور ٹریفک کے مسائل سے نمٹنے کیلئے جدید طرز کے ایک بڑے جنرل بس سٹینڈ کی تعمیر کی اشد ضرورت تھی کیونکہ موجودہ حالات میں چھوٹے بڑے کئی بس سٹینڈ شہریوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے جہاں ناکافی ہیں وہیں ان کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل بھی قابل توجہ ہیں جبکہ ٹریفک کی یلغار سے شہر کی فضا بھی دھوئیں سے آلودہ ہو کر مختلف النوع بیماریوں کا موجب ہے، مجوزہ منصوبہ پانچ ارب روپے کی مجموعی لاگت سے جون 2023ء میں تکمیل پذیر ہوگا، 303 کنال رقبے پر مشتمل عالمی معیار کے اس بس سٹینڈ میں مسافروں کیلئے تمام تر سہولیات دستیاب ہوں گی جن میں کمرشل شاپس، ریسٹ ایریاز ، مسجد، بیت الخلا، ورکشاپس، سروس سٹیشن، پٹرول پمپ، واٹر ری سائیکلنگ پلانٹ،سولر سسٹم وغیرہ شامل ہیں، جنرل بس سٹینڈ کی تعمیر کے بعد شہر کے اندر قائم چھوٹے بڑے 16 بس سٹینڈز کو شہر سے باہر منتقل کر دیا جائے گا جس سے شہر میں آلودگی کو بھی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ مجوزہ جدید بس ٹرمینل کی پوری تفصیلات تو سامنے نہیں آئیں مگر جس بڑے پیمانے پر اس منصوبے کے خدوخال تصور میں آ سکتے ہیں ان کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ منصوبہ ملٹی سٹوری کی طرز پر تعمیر کیا جائے گا کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس قسم کے منصوبوں کو زیادہ وسعت دینے کیلئے ان کو ملٹی سٹوری طرز پر تعمیر کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بسوں، ویگنوں وغیرہ کے اڈوں کی گنجائش پیدا کی جا سکے اور آنے والے کم از کم سو بس تک ان میں مزید گنجائش ہو، اگر موجودہ یعنی مجوزہ منصوبہ انہی خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے تو یہ مثبت اقدام دور اندیشی کی عمدہ مثال ہوگا اور اگر صرف 303کنال پر تعمیرکیا جانے والا منصوبہ صرف زمین پر ہی دکھائی دے گا تو پھر اس کا حشر بھی آئندہ بیس پچیس سال میں شہر میں جا بجا موجود اڈوں جیسا ہی ہو جائے گا جن میں اب مزید گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے یہ اپنی افادیت کھو چکے ہیں چونکہ ابھی منصوبے کا صرف افتتاح ہی ہوا ہے اس لئے اگر یہ منصوبہ ملٹی سٹوری کی طرز پر نہیں سوچا گیا تو بہتر ہوگا کہ اپر نظرثانی کی جائے اور اسے کم از کم تین منزلہ جدید ترین منصوبے میں ڈھال کر اس کیلئے ضرورت کے مطابق مزید فنڈز مہیا کرنے کے بعد اس کی تعمیر کا آغاز کیا جائے تاکہ آنے والے سو برس تک مزید کسی ایسے منصوبے کی ضرورت نہ رہے کیونکہ آبادی تو روز بروز بڑھ رہی ہے اور مجوزہ منصوبہ بھی ایک نہ ایک روز مزید تقاضوں پر کسی اور نئے منصوبے کا متقاضی بن کر سامنے آجائے گا اس لئے ابھی سے کل کی سوچ اپنا لی جائے تو بہتر ہوگا۔
کالام میں درختوں کی ناجائز کٹائی
یہ خبر انتہائی تشویشناک ہے کہ سوات کے خوبصورت اور ٹھنڈے موسموں کی بنا پر سیاحت کے بہترین مرکز کالام میں درختوں کی بے دریغ کٹائی جاری ہے اوشو فارسٹ ایریا میں قیمتی اور پرانے دیار کے درختوں کی کٹائی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں ٹمبر مافیا کے ارکان پہلے درختوں کے ذیلی تنے کرید کر چھوڑتے ہیں اور پھر کچھ دن بعد ان درختوں کوگرا کر سلیپر میں تبدیل کرکے سمگل کرتے ہیں خبر کے اس سلسلے میں متعلقہ فارسٹ ڈویژن کے ذمہ داران کا مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی مگر دوسری جانب سے فون کال اٹنیڈ نہیں کی گئی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ عالمی ضابطہ اخلاق کے تحت جنگلات میں درخوتوں کی کٹائی کے بعد اصولی طور پر ایک درخت کے بدلے سولہ پودے لگائے جانے ضروری ہیں بدقسمتی سے مگر ہمارے ہاں اس اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عرصہ دراز سے نہ صرف مبینہ طور پر سو پچاس درختوں کی کٹائی کے پرمٹ پر پانچ چھ سو بلکہ اس سے بھی زیادہ درخت کاٹے جاتے ہیں اور اس چوری پر محکمہ جنگلات کے کارندوں کی آشیر باد سے پردہ ڈالنے کیلئے وہاں آگ بھی لگا دی جاتی ہے تاکہ چوری کا سراغ نہ مل سکے اس سے زیادہ ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کیونکہ جنگلات کی اس طرح بے دریغ کٹائی سے ماحول پر شدید منفی اثرات پڑتے ہیں موسم شدید انداز میں متاثر ہوتے ہیں زمین کا کٹائو سیلاب کا باعث بنتا ہے جنگلی حیات کیلئے خطرات پیدا ہوتے ہیں سیاحت پر منفی اثرات سے متعلقہ مقامات کے باشندوں کی زندگی بھی دگرگوں ہو جاتی ہے حکومت ایک جانب سیاحت کے فروغ کے دعوے کرتے نہیں تھکتی اور گرمیوں میں سرد مقامات کا رخ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے اقدامات اٹھا رہی ہے مگر دوسری جانب ان سرد مقامات کے جنگلات کو جس تیزی سے تباہی کا شکار کیا جا رہا ہے اگر اس صورتحال پر قابو نہیں پایا گیا تو آنے والے دس بیس سال میں ان پر فضا مقامات کی اہمیت ختم ہو جائے گی یہاں گرمیوں میں ٹھنڈ کا وجود تو کیا سردیوں میں بھی عام سا موسم ہو جائے گا برفباری اور بارشیں نہ ہونے سے کئی طرح کے مسائل جنم لیںگے اس ساری صورتحال کی ذمہ داری محکمہ جنگلات کے ان ملازمین پر عائد ہو گی جو اس قسم کی غلط بخشیوں میں مددگار ہوںگے حکومت ایک جانب ملین اور بلین ٹری منصوبوں پر عمل پیرا ہے دوسری جانب اس کے متعلقہ اہلکار مبینہ طور پر جنگلات کی تباہی کے درپے ہیں اس سے پہلے کہ یہ لوگ کالام اور دوسرے سرد علاقوں کے حس کو اجاڑ کر رکھ دیں ان کیخلاف تادیبی کارروائی ضروری بن جاتی ہے تاکہ جنگلات کی تباہی کا تدارک کیا جا سکے اور قومی دولت کو برباد ہونے سے بچایا جا سکے۔
سیاسی اختلافات اور اجتماعی مسائل
سٹی کونسل پشاور کے مرکزی ہال میں سیاسی معاملات پر جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف کے چیئرمینوں کے مابین نعرے بازی اور ہلڑ بازی کی وجہ سے جو صورتحال گزشتہ روز سامنے آئی اس پر جس قدر بھی افسوس کیا جائے کم ہے بلدیاتی نمائندوں کو عوام نے اس لئے منتخب نہیں کیا کہ وہ اپنے جماعتی اختلافات کی آڑ میں عوام کے مسائل کے ساتھ کھلواڑ کریں، یہ کام صوبائی اور مرکزی رہنمائوں پر چھوڑ دیئے جائیں تو بہتر ہے کیونکہ شہری مسائل کو حل کرنے کی جو ذمہ داری عوام نے ان شہری نمائندوں کو سونپ رکھی ہے بہتر ہے کہ یہ انہی پر توجہ مرکوز رکھیں کیونکہ اس وقت شہری اپنے بلدیاتی مسائل سے پریشان ہیں اور ان کا حل چاہتے ہیں اس حوالے سے میئر پشاور حاجی زبیر علی کی اس بات سے ہم کلی طور پر متفق ہیں کہ تمام ممبران سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر شہر کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور تمام سیاسی جماعتوں کے بلدیاتی نمائندے شہر کی خوبصورتی، امن کے قیام اور شہر کی تعمیر و ترقی کیلئے ایک دوسرے سے تعاون کریں امید ہے کہ بلدیاتی نمائندے جس مقصد کیلئے میدان میں اترے ہیں یعنی شہروں کی بلاتفریق خدمت یہ اپنے آپ کو اسی مقصد تک محدود رکھیں گے اور باہمی تعاون سے شہریوں کی بے لوث خدمت کرکے اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیںگے۔

مزید پڑھیں:  آئی ٹی کے منصوبے پورے نہیں ادھورے