او آئی سی کا اہم اجلاس

مسلم امہ کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد میں یکجا ہو کر مسلمانوں کے مسائل پر غور وخوض اس حوالے سے بڑی اہمیت رکھتا ہے کہ بقول وزیر اعظم عمران خان ہم ڈیڑھ ارب مسلمان آپس میں تقسیم ہونے کی وجہ سے دنیا سے اپنی بات منوانے میں بری طرح ناکام ہیں ۔او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کو ہم نے مایوس کیا، عالمی قرار دادوں کے باوجود ہم دونوں معاملات میں ناکام ہوئے ہیں۔ہم کوئی اثر نہیں ڈال سکے، ہم اس ظلم کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ ڈیڑھ ارب مسلمان ہونے کے باوجود ہماری بات کوئی سننے کو تیار نہیں ۔نہ ہمیں کوئی سنجیدہ لیتا ہے ۔انہوں نے خبر دار کیا کہ اگر بحیثیت مسلمان ہم متحد نہ ہوئے اور ایک مؤقف نہ رکھا تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔ یہ ضروری ہے کہ اب ہم متحد ہو جائیں اور کسی تنازعہ یا بلاک کا حصہ بننے کی بجائے ایک واحد بلاک بن کر بنیادی ایشوز پر مل کر آواز اٹھائیں اور امن کیلئے اپنی طاقت استعمال کریں، ہم تنازع کے نہیں امن کے شراکت دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی ایشوز پر او آئی سی کو ایک متحدہ فرنٹ بنانا ہوگا۔ اسلام فوبیا ایک حقیقت ہے ہمیں اپنا بیانیہ آگے بڑھانا ہوگا۔ دہشتگردی کا کسی مذہب سے تعلق نہیں، وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں مسلم امہ کو درپیش جن مسائل کی نشاندہی کی ہے ان سے انکار کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلم امہ کا سب سے اہم مسئلہ ایک مؤقف پر متحد نہ ہونا ہے۔ اگرچہ عیسائی بھی دو بڑے فرقوں یعنی کیتھولک اور پروٹسنٹ میں تقسیم ہیں تاہم دوسرے مذاہب کے مقابلے میں یہ اپنے تمام تر اختلافات بھلا کر یکجا ہو جاتے ہیں اور مل کر مقابلہ کرتے ہیں، بدقسمتی سے مگر مسلمان نہ صرف مسلکوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے میں بھی مصروف رہتے ہیں اور مسلمانوں کے دشمن اسی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر ان میں تفرقے کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد بطور خاص دہشتگردی کو ایک خاص ایجنڈے کے تحت اسلام سے جوڑا گیا اور اس کی آڑ میں اسلامی شعائر پر حملوں کو مغرب میں معمول بنایا گیا۔ ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو اہل مغرب نے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں نشانہ تضحیک بنانا مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا وتیرہ بنا رکھا ہے ۔کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تحریری طور پر ہرزہ سرائی کی جاتی ہے اور کبھی کارٹون بنا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی جاتی ہے اور جب مسلمان اس صورتحال کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو ان کو دہشتگرد قرار دے کر پوری دنیا اکٹھی ہو جاتی ہے۔ اس کی آڑ میں نہ صرف فلسطینی مسلمانوں پر یہودی مظالم کو درست قرار دے کر اقوام متحدہ میں ان کے حق میں آوازوں کو سنی ان سنی کر دیا جاتا ہے بلکہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم پر بھی کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ حالانکہ دونوں معاملات پر خود اقوام متحدہ کی قرار دادیں موجود ہیں جن میں دونوں کے حقوق کو تسلیم کر کے ان کے حل پر اتفاق کیا گیا ہے مگر ایک جانب مغربی طاقتوں کی پشت پناہی سے قائم کئے گئے ناجائز ریاست اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے اور اس کے خلاف اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ہوا میں اڑایا جا رہا ہے تو دوسری جانب بھارت کی خوشنودی کے لیے مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے صرف نظر کرتے ہوئے تزویراتی مقاصدکی تکمیل پر بڑی طاقتیں اس لیے آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں کہ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہونے کے ناتے مغربی ممالک کیلئے سرمایہ کاری کا میدان ہے، تاہم افسوس تب ہوتا ہے جب بڑے اور مالدار مسلمان ممالک بھی اپنی دولت میں اضافے اور تحفظ کی خاطر بڑی طاقتوں کے تقش قدم پر چلنے پر مجبور ہیں ۔ ان بڑے مالدار ممالک کی دولت مغرب میں بنکوں میں محفوظ ہے جن سے استفادہ کرنے کی انہیں امریکہ اور عالمی مالیاتی اداروں کی اجازت کے بغیر اجازت نہیں دی جاتی ۔اور بھارت میں بھی ان ممالک کیلئے سرمایہ کاری کے مواقع ملتے ہیں اس لیے خواہ فلسطین ہو یا کشمیر مسلمانوں پر ہر جگہ مصیبتوں کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور ان مظالم کے خلاف مسلم امہ کی جانب سے بھی کوئی آواز نہیں اٹھ رہی۔ مسلمانوں کی اسی تقسیم نے ان کی آواز کو بے اثر کر رکھا ہے ایسے میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے امت مسلمہ کو متحد ہونے کا پیغام یقیناً اسلام کے اسی ابدی پیغام کی جانب اشارہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں یہ ایک جسم کا حصہ ہیں اور جسم میں کسی بھی حصے میں اٹھنے والا درد پورے جسم کیلئے تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ بدقسمتی سے مگر آج مسلمان اسلا م کے اس آفاقی پیغام کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ اور پارہ پارہ ہو کر مسلم دشمن قوتوں کے لئے نوالہ بنے ہوئے ہیں۔ اب بھی وقت نہیں گیا اگر یہ اپنے فروعی اختلافات ایک طرف رکھ کر متحد ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکے گی۔ ان کی آواز کو نہ صرف اہمیت دینے پر مجبور ہوگی بلکہ ان کے تمام مسائل بھی حل ہو سکیں گے۔ مگر شرط صرف اور صرف باہمی اختلافات بھلا کر اتحاد و اتفاق کی راہ پر چلنے میں مضمر ہے ۔

مزید پڑھیں:  تیس برس میں مکمل نہ ہونے والی سڑک