وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں

یکم اپریل کو تو خبردار رہنے کا مشورہ دینا تو بنتا ہے ‘ آگے آپ کی مرضی ‘ چوکنا رہ کر نہ صرف خود کو محفوظ رہتے ہیں اور اپنے قریبی دوست احباب کو بھی کسی مصیبت سے بچانے میں مدد کرتے ہیں یا پھر بعض عاقبت نا اندیشوں کے غلط رویئے میں ”مددگار” بن کر کسی کے لئے وقتی ہی سہی مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ یعنی بقول شاعر کسی کی جان گئی ‘ آپ کی ادا ٹھہری ‘ کیونکہ جب تک یہ سوشل میڈیا قسم کی وباء نہیں آئی تھی تو لوگ باگ اکثر ٹیلی فون کے ذریعے اپنے یہ تعلق داروں ‘ دوستوں اور رشتہ داروں (جن کے گھروں میں بھی فون نصب تھے) کے ہاں فون کرکے گھریلو خواتین کو ان کے اہل خانہ مرد حضرات کے حوالے سے کسی حادثے کا شکار ہونے کی اطلاعات دے کر کسی مسئلے کی نشاندہی کرکے پریشان کر دیتے تھے ‘ اور لطف اندوز ہوتے تھے ‘ بعد میں جب ”متاثرہ” خاندان پر حقیقت منکشف ہوتی تھی تو ظاہر ہے فون کرنے والوں کے لئے ڈھیروں بلکہ جھولیاں بھر بھر کر بد دعائیں دی جاتیں ‘اس حوالے سے ہم اپنے قریبی دوست احباب ‘ رشتہ داروں کو پہلے ہی الرٹ کر دیتے کہ اگر اس قسم کی کوئی پریشان کن اطلاع ان تک پہنچائی جائے تو اس کی تصدیق لازمی کریں اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ نہایت سکون سے پہلے خبر کا جائزہ لیں اس کے بعد کسی رد عمل کا اظہار کریں ‘ اس لئے تمہید تھوڑی سی لمبی ہو گئی تو اس کی ضرورت بھی تھی ‘ چونکہ ان سطور کی تحریر کرتے ہوئے آج یکم اپریل ہے اور اہل مغرب اس روز ایک دوسرے کو بے وقوف بنانے کو ایک رسم کے طور پر مناتے ہیں اور ان کے ہاں اس دن کے حوالے سے بعض روایات بھی موجود ہیں جن کا مسلمانوں سے تعلق بتایا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں بعض رویات کیا ہیں اس حوالے مرحوم سلیم ا حمد کا شعر ہم مسلمانوں کی کیفیت پر بہترین تبصرہ ہے
شاید کوئی بندہ خدا آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم بھی اور ہم جیسے بہت سے اہل قلم اپریل فول کی اس رسم کے حوالے سے حتی المقدور معلومات تقریباً ہر سال فراہم کرتے ہیں مگر جو بھیڑ چال چلی ہوئی ہے عام لوگ اس سے ہی لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں اور دوسروں کی دل آزاری کا سبب بنتے ہیں ‘ مگر ہم بھی اپنی عادت سے مجبور ہیں باز نہیں آتے ‘ اس لئے اس”رسم” کے پیچھے جو کہانیاں بطور روایت چلی آرہی ہیں ان کی تھوڑی بہت تفصیل عرض کر دیتے ہیں یعنی بقول مرزا غالب وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ‘ ہم اپنی وضع کیوں بدلیں ‘ یعنی کسی کی بھی مرضی وہ اپنی سچ بدلتے ہیں یا نہیں ‘ ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ
مانو نہ مانو جان جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بدحضور کو سمجھائے دیتے ہیں
اس ضمن میں وکی پیڈیا پر مختلف کہانیاں موجود ہیں ان میں سے بعض روایات کو طوفان نوح اور نوح علیہ السلام کی کشتی سے جوڑتے ہیں ‘ یعنی جب نوح علیہ السلام کئی سو برس تک اپنی قوم کو نصیحت کرتے کرتے بالآخر اللہ جل شانہ کے حکم پر کشتی بنانے لگے یعنی اپنی قوم کو ایک بڑے طوفان کی پیشگوئی میں ناکامی کے بعد انہوںنے کشتی بنانی شروع کی تو قوم ان کا مذاق اڑاتی رہی ‘ لیکن اس مذاق کا نتیجہ بالآخر ان کی قوم کے نافرمان لوگوں نے چکھ لیا ‘ اسی طرح مختلف قوموں کے ساتھ پیش آنے واقعات کے ساتھ بھی اپریل فول کا تعلق جوڑا جاتا ہے ‘ ممکن ہے کہ اس قسم کے واقعات تاریخ کے صفحات پر بکھرے پڑے ہوں ‘ تاہم ان داستانوں کو جمع کرنے والوں نے(شاید جان بوجھ کر اس کہانی کا تذکرہ نہیں کیا جو خاص طور پر سپین کے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے حوالے سے تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے ‘ یعنی سپین کے مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے ضمن میں جودلخراش داستان مسلمانوں تک پہنچی ہے وہ کچھ اور ہی گل کھلا رہی ہے ‘ کہانی کچھ یوں ہے کہ جب سات صدیوں تک سپین پر حکومت کرنے کے دوران مسلمان اپنے عروج پر تھے اور اس کے برعکس اہل مغرب یعنی غیر مسلم قصر مذلت ‘ گمنامی اور تعلیمی لحاظ سے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے ‘ جسے تاریخ میں مغرب کا سیاہ دور کہا جاتا ہے اس کے برعکس سپین میں مسلمان علم و حکمت کے روشن مینار تعمیر کر رہے تھے ‘ ان کے فلاسفر اور سائنسدان نئی ایجادات ‘ اختراعات اور تحقیق کے میدان میں موتی تراش رہے تھے ‘ تو بالآخر ان کے اہل حکم بھی غفلت کا شکار ہوتے چلے گئے یہ وہ صدیاں تھیں جب سپین کے ہمسایہ مغربی ممالک سے لوگ مسلمانوں کی درسگاہوں میں پڑھنے اور ان کی تحقیق سے تدریس کی خوشہ چینی کرنے میں مصروف تھے اور بالآخر جہل کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے مغرب نے انگڑائی لیکر اپنی علمی پسماندگی سے باہر نکلنے میں کامیابی حاصل کی ‘ اس دوران مسلمان ریاستیں کمزور ہوتی چلی گئیں کہ ان کے رئوساء اور حکمران عیش و عشرت کے دلدادہ ہوتے چلے گئے تھے ‘ مغربی استعمار نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمان درباروں میں اپنی سازش کے تانے بانے بننا شروع کر دیئے ‘ مسلمانوں ہی کے اندر ایسے افراد تلاش کئے جو مغربی سازشوں میں ان کا ہاتھ مضبوط کر رہے تھے ‘ ان سازشوں کی وجہ سے کمزور ہوتی ہوئی مسلمان ریاستوں پر زوال آنا شروع ہوا ‘ اور بالآخر ایک روز عیسائیوں نے ایک بڑی جنگ کے نتیجے میں سپین پر قبضہ جما لیا ‘ مسلمانوں کے سات صدیوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ‘ تو مسلمانوں کا قتل عام کیا ‘ مگر اس کے باوجود کئی شہروں میں مسلمان یا تو چھپ کربیٹھے تھے یا بظاہر تو انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کر کے خود کو عیسائی ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا ‘ جبکہ دل سے وہ اب بھی مسلمان تھے ‘ عیسائیوں کو بھی شک تھا کہ یہ لوگ دل سے اب بھی مسلمان ہیں ‘ ان سے جان چھڑانے کے لئے حکومت نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے ان مسلمانوں کو جوملک چھوڑ کر جانے کی خواہش رکھتے ہوں ان کو ایک مخصوص بندر گاہ پر مقررہ تاریخ کو اکٹھے ہونے کا مشورہ دیا ‘ یہ چال کارگرثابت ہوئی اور چھپے ہوئے مسلمان اپنے شہروں سے بندر گاہ کی طرف روانہ ہوئے ‘ انہیں بحری جہازوں میں بٹھا کر خدا حافظ بلکہ ”خدا ہی حافظ” کہہ کر روانہ کیاگیا’ مگر ان جہازوں کوفنی نقص پیدا کرکے زیادہ دور تک جانے کے قابل ہی نہیں رہنے دیا گیا تھا اور جیسے ہی جہاز سمندر کے بیچ پہنچے تو ان کے ڈوبنے کا منظر ساحل سے بخوبی دیکھا جا سکتا تھا اور یوں تمام مسلمانوں کا خاتمہ ہوگیا ‘ وہ جوصدیوں پہلے طارق بن زیاد نے سپین کے ساحل پر کشتیاں جلا کر سپین کو فتح کرنے کی بنیاد رکھی تھی اسے مسلمانوں کے خون سے رنگین بنا کر اہل مغرب نے صدیوں کا بدلہ چکا دیا تھا اور یکم اپریل کی رسم اسی کی یاد میں منائی جاتی ہے ‘ ہم مسلمان بھی ان کا ساتھ دیتے ہیں ‘ مگر سوچتے نہیں۔

مزید پڑھیں:  قومی اتفاق رائے کی ضرورت