پاکستان کا مناسب جواب

دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان نے سفارتی چینلز کے ذریعے دھمکی آمیز خط بھیجنے والے ملک کو کورٹ مارشے یعنی احتجاجی مراسلہ بھیج دیا ہے جبکہ امریکہ نے ایک بار پھر اس خط کے پس پردہ ہونے کے الزام کی تردید کی ہے ۔قبل ازیںقومی سلامتی کمیٹی این ایس سی کے اجلاس میں کسی ملک کا نام لئے بغیر موصولہ ا یک مراسلہ کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف قراردیا گیا تھاجبکہ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ کسی بھی امریکی حکومتی ادارے یا عہدیدار نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر پاکستان کو خط نہیں بھیجا۔مبینہ خط اور پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں امریکا کے ملوث ہونے کے بارے میں سوالات کے جواب میں محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔امریکیوں کو مبینہ طور پر دوسرا مسئلہ وزیراعظم عمران خان کی خارجہ پالیسی سے تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک عمران خان دھمکی کے ساتھ منظر عام پر نہیں آئے اس وقت تک تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ یا نئی کشیدگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔اسلام آباد نے گزشتہ ہفتے او آئی سی وزرائے خارجہ کے اجلاس کے لیے امریکی انڈر سیکریٹری برائے شہری سلامتی، جمہوریت اور انسانی حقوق کی میزبانی بھی کی تھی ۔ان سے ملاقات کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹوئٹ کیا تھا کہ دوطرفہ طور پر پاکستان کے امریکا کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے دوطرفہ اور مشترکہ علاقائی مقاصد کو فروغ دینے کے لیے ایک باقاعدہ اور منظم مذاکراتی عمل اہم تھاسمجھ سے بالا تر امر یہ ہے کہ اتنے اہم مسئلے پر تقریباً24دن انتظار کے بعدقومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد کیوں کیا گیا اگر یہ معاملہ اتنا حساس تھا تو اس قدر تاخیر غفلت کے زمرے میں آتی ہے جس کی قومی سلامتی کمیٹی جیسے اعلیٰ ترین اور ذمہ دار کمیٹی سے توقع ہر گز ہر گز نہیںتھی جیسا کہ سفارت کاروں کی جانب سے اسے معمول کی سفارتی کیبل ا رسال کرنے کا عمل قرار دیا جارہا ہے تو اس پر اس طرح کے رد عمل کے محولہ ملک سے سفارتی تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہوںگے ۔یہ ایک سفارتی اور اہم ملک کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہے اگر اس وقت پاکستان میں ممکنہ حکومتی تبدیلی کا عمل جاری نہ ہوتا تو اس پر قومی اتفاق رائے کی تجویز دی جا سکتی تھی موجودہ حالات میں اس کی بھی گجائش نظر نہیں آتی بہتر ہو گا دریں اثناء سابق وزیر اعظم کی جانب سے حکومت ملنے کی صورت میں اس حوالے سے معاملات سامنے لانے کا اعلان باقاعدہ پریس کانفرنس میں کیا گیا ہے ۔ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ اس معاملے کو سیاسی بنانے یا جذبات کے اظہار کا ذریعہ تلاش کرنے کی بجائے اسے سفارتی برد باری کے ساتھ حل کیا جائے مراسلہ کے ملنے کے بعد سفارتی اور وزارت خارجہ کی جانب سے اس حوالے سے کسی رد عمل کا اظہارسامنے نہ آنا ہی وہ حکمت عملی نظر آتی ہے جسے ہماری وزارت خارجہ نے اختیار کرنے کو مناسب سمجھا بہرحال سفارتی تعلقات کے نازک معاملات میں وزارت خارجہ ہی سے مشاورت کی جائے اور اس حوالے سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے گریز کیا جائے۔
حکمران جماعت کی نمایاں کامیابی
اگرچہ دم تحریر خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے مکمل اور حتمی نتائج سامنے نہیں آئے ہیں لیکن بہرحال بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک ا نصاف کے امیدواروں کی سب سے بڑی تعداد کامیاب ہوئی ہے۔سترہ ا ضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں پاکستان تحریک انصاف کو متوقع کامیابی نہیں ملی تھی لیکن بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں اس کی کامیابی سے وہ تاثر زائل ہونا چاہئے کہ صوبے میں تحریک انصاف کی حمایت میں کمی آئی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کی کامیابی کی وجوہات میں جہاں صوبائی حکومت کی جانب سے مختلف اقدامات ‘ وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی جانب سے الیکشن کمیشن کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑے جلسوں کا انعقاد جیسے عوامل قابل ذکر ہیں لیکن اگر جاری حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو مرکز میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو متحرک اور یکجا کرنے کا وہ کردار ادا کیا جو شاید معمول کے حالات میں ممکن نہ تھے ۔تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل پاکستان تحریک ا نصاف کی حکومت کی پالیسیوں اور خاص طور پر مہنگائی اور اس جیسے دیگر عوامی مسائل کے باعث تنقیداور مشکلات کا سامنا تھا جس سے تحریک انصاف کے کارکن اخلاقی طور پر ایک طرح کے دبائو کا شکار نظر آرہے تھے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وہ حالات اور صورتحال پس منظر میں چلی گئی نئے حالات مرکز میں حکومت کے خلاف کتنے بھی مشکل اورباعث چیلنج ہوں عوامی اور سیاسی طور پر یہ حالات تحریک انصاف کے موافق اور حق میں ہو گئے ۔جو بلدیاتی انتخابات میںکامیابی پرمنتج ہوئے اور پی ٹی آئی کے کارکنوںمیںجوش و جذبہ غود کر آیا اب اسے برقرار رکھنا اور کارکنوں کو آئندہ انتخابات کے لئے تیار رکھنا قیادت کا امتحان ہوگا۔
رمضان پیکج کے ثمرات عوام تک پہنچانے کی ضرورت
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے رمضان المبارک کے دوران عوام کو مہنگائی کی مشکل صورتحال سے نکالنے کے لئے جہاں رمضان پیکج جیسا قابل اطمینان اقدام کیا گیا ہے وہاں منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی میں مزید سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت سے صرف نظر ممکن نہیںرمضان پیکج کو عوا م کے لئے ثمر آور بنانے کے لئے ان غلطیوں کا اعادہ کرنے سے گریز کی ضرورت ہو گی جو ہر بار سامنے آتے ہیںچیک اینڈ بیلنس کا نظام صرف دعوئوں کی حد تک نظر نہیں آنا چاہئے بلکہ حکومت متعلقہ حکام کو پابند کرے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر موقع پر جا کر صورتحال سے آگاہی حاصل کر لیں اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے حکومت کے اقدامات کو ہر صورت میں عوام کے لئے سہولت اور نفع کا باعث بنائے۔

مزید پڑھیں:  وقف قبرستان کا احسن منصوبہ