لانگ مارچ کی ناکامی کی وجوہات

لانگ مارچ کی ناکامی کی وجوہات

ملک میں گرمی بڑھنے کے ساتھ سیاسی پارہ بھی بڑھ رہا ہے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان پشاور میں بیٹھ کر مخالف سیاسی جماعتوں پر تابڑ توڑ لفظی گولہ باری کر رہے ہیں، ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے پی ٹی آئی کے اس بیانیہ کا بھر پور جواب دیا جا رہا ہے، یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا ابھی یہ کھیل پوری طرح واضح نہیں ہوا ہے حال کا قصہ یہ ہے کہ عمران خان گذشتہ دوہفتوں سے پشاور میں مقیم ہیں اس دوران پارٹی کی کور کمیٹی کے2اجلاس ان کی سربراہی میں پشاور میں منعقد ہوئے ہیں،

پی ٹی آئی کے25مئی کے لانگ مارچ کیلئے حکمت عملی بھی پشاور میں ہی طے کی گئی تھی اور لانگ مارچ کا ابتدائی پوائنٹ بھی پشاور تھا اس لانگ مارچ کی ناکامیوں کے اسباب تلاش کئے جا رہے ہیں کیونکہ توقع تھی کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ خیبر پختونخوا سے نکلیں گے لیکن سڑکوں پر آنے والے کارکنوںکی تعداد مایوس کن حد تک کم تھی حالانکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کی وجہ سے صوبے کے اندر آمد و رفت پر کسی قسم کی روک ٹوک نہیں تھی اور اٹک تک راستہ بالکل صاف تھا اس لئے اٹک تک تو کم ازکم ایک لاکھ لوگوں کا ہونا بنتا ہے لیکن اٹک تک بھی کارکنوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی، اس مارچ کیلئے تمام ایم پی ایز اور ایم این ایز کو فی کس ایک ہزار کارکن جمع کرنے کا ہدف دیا گیا تھا اس حساب سے انہوں نے کم ازکم چار لاکھ افراد اسلام آباد لے جانے کا دعویٰ کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے کارکن صرف عمران خان کو مانتے ہیں اس وجہ سے جب لانگ مارچ پشاور سے شروع کیا جانا تھا تو ارکان قومی اسمبلی اور پارٹی کے رہنما مطمئن ہوگئے تھے کہ کارکن عمران خان کے ساتھ خود بخود نکلیں گے اس لئے پارٹی کے رہنمائوں نے کارکنوں کو جمع کرنے کی بجائے یونین کونسلوں کی سطح پر فرضی فہرستیں بنائیں یہ تمام لوگ لانگ مارچ کے دن غائب تھے یہاں تک کہ اہم صوبائی وزراء بھی اپنے ساتھ دس سے بارہ لوگ لائے تھے جن میں سے بھی زیادہ تر لوگ سرکاری ملازم بتائے گئے ہیں جن کی وزیروں کی ساتھ ڈیوٹی لگی ہوئی تھی مارچ میں شرکت کرنا ان کی مجبوری تھی اس طرح تمام لیڈر ایک دوسرے کے انتظار میں تھے اور انفرادی طور پر کارکنوں کو متحرک نہیں کیا گیا جن لوگوں کے پاس ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں تھی ان لوگوں کیلئے بھی کوئی انتظام نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ سے عمران خان بھی ناراض نظر آ رہے ہیں، پارٹی کی ان کمزوریوں کے علاوہ بھی لانگ مارچ کے ناکام ہونے کی وجوہات تھیں ایک سب سے بڑی وجہ گندم کی کٹائی کے سیزن کا شروع ہونا ہے اس مہینے کے دوران صوبہ بھر میں زراعت پیشہ لوگ اپنے علاقوں تک محدود ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں شہروں کی تجارتی سرگرمیوں اور ٹرانسپورٹ سروس پر بھی منفی اثر پڑتا ہے لوگوں کے نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیاں بھی ورکشاپس میں کھڑی کر دی جاتی ہیں اور بازار بھی خریداروں کے نہ ہونے سے سنسان ہو جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  مرحومین کے شناختی کارڈ پر جاری سمیں بلاک کرنے کا اعلان

صوبہ میں پی ٹی آئی کا ایک بڑا حلقہ زراعت پیشہ ہے اس مرتبہ چونکہ موسم کی غیر یقینی صورتحال کا بھی سامنا ہے اس لئے لوگ جلد ازجلد اپنی فصلوں کو سنبھالنا چاہتے ہیں گندم کی کٹائی کے سیزن میں ان کے کیلئے کسی مارچ وغیرہ میں جانا مشکل تھا دوسرا یہ بھی کہ شدید گرمی تھی اس گرمی میں انتخابات تو ہو سکتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کیلئے جلسے کرانا مشکل ہو جاتا ہے گرم موسم کی وجہ سے لوگ بھی دن کے اوقات میں باہر نہیں نکلتے ہیں ایسے میں صرف پی ٹی آئی کے پاس کچھ نوجوان تھے جنہیں موسمی اثرات کی فکر نہیں تھی وہ نوجوان اس مہم میں محدود پیمانے پر شریک تھے زراعت پیشہ اور گرمی سے متاثر ہونے والے کارکن اس مارچ کا حصہ نہیں تھے لیکن انہوں نے گھروں پر بیٹھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی نمائندگی کی ہے ان وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے لانگ مارچ کیلئے6روز کی جو مہلت دی ہے اس کے اختتام پر اگلے لانگ مارچ کا اعلان کرنے کی بجائے بعد کے مہینوں کیلئے تاریخ دی جائے گی اور یہ تاریخ اگست یا ستمبر کیلئے دی جانے کا امکان ہے پشاورمیں رہتے ہوئے انہوں نے پی ٹی آئی کی تنظیم نو کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے چارسدہ میں اتوار کے روز ورکر کنونشن اس سلسلے کا آغاز تھا آئندہ دنوں کے دوران ان سرگرمیوں میں مزید تیزی آئے گی تاہم گرمی کے دوران بڑے اجتماعات دیکھنے کو نہیں ملیں گے دوسری طرف کی سیاسی جماعتیں خاموش ہیں اور ان کے اندر کوئی تحریک نظر نہیں آ رہی، اے این پی کی جانب سے البتہ صوبہ بھر میں جلسوں کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ جماعت اسلامی بھی مہنگائی کیخلاف احتجاج شروع کر چکی ہے ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کی طرف سے فی الحال الیکشن کیلئے پیشگی مہم شروع کرنے کے بارے میں کوئی رائے سامنے نہیں آئی ہے وفاقی حکومت میں شامل ہونے کی وجہ سے مذکورہ تین جماعتیں اکتوبر تک انتظار کریں گی اور موسم معتدل ہونے کے بعد یہ جماعتیں سیاسی مہم میں کود پڑیں گی۔
اس سارے عرصہ کے دوران خیبر پختونخوا تمام سیاسی جماعتوں کیلئے اکھاڑا بنا رہے گا جس کا اثر یہاں کی معیشت اور لوگوں کے روزگار پر پڑے گا وفاقی حکومت کے ساتھ مخاصمت کے نتیجے میں صوبہ کو فنڈز کی ترسیل روک دی گئی ہے خیبر پختونخوا کے بڑے ترقیاتی منصوبے اس کی وجہ سے مالی بحران سے دوچار ہو رہے ہیں گذشتہ چار سالوں میں پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں ادائیگیاں نہیں کی گئی ہیں جس سے صوبہ میں انتظام وانصرام بیرونی قرضہ جات کے سہارے چل رہا ہے، مرکز میں پی ٹی آئی کے چارسالہ دور حکومت میں اٹھارویں ترمیم کے تحت حاصل اختیارات کو صوبے کی جانب سے استعمال میں نہیں لایا گیا تھا اب چونکہ وفاق میں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت بنالی ہے اس لئے اس بیانیہ کو کائونٹر کرنے کیلئے صوبائی حکومت کے عہدیدار متحرک ہوئے ہیں اور وفاقی حکومت سے اپنے حصے کے فنڈز مانگ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ووٹ کے سامنے فارم 45کی کوئی اہمیت نہیں، چیف جسٹس

وفاق کے ساتھ مخالفت کا یہ عالم ہے کہ صوبائی بجٹ وفاقی حکومت کے بجٹ سے قبل پیش کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اس سلسلے میں صوبائی اسمبلی کی جانب سے یکم جون کو بجٹ پیش کرنے کا عندیہ دیاگیا ہے عام طور پر جب وفاقی حکومت کی جانب سے صوبہ کیلئے قابل تقسیم محاصل سے فنڈز مختص کئے جاتے ہیں تو اس کے بعد ہی صوبے کا بجٹ بنتا ہے آثار بتا رہے ہیں کہ صرف کرنٹ بجٹ پیش کیا جائے گا جبکہ ترقیاتی بجٹ صرف قیاس آرائیوں کی بنیاد پر ہوگا جب وفاق سے بجٹ پیش کر دیا جائے گا اس کے بعد صوبے کا اصل ترقیاتی پروگرام منظور ہو سکے گا یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ آئندہ مالی سال کیلئے صوبائی بجٹ کا تخمینہ جاری مالی سال کیلئے مختص تخمینہ جات سے10سے20فیصد تک زائد ہوگا اور اسمبلیوں کی مدت سے متعلق ابہام کے باعث صوبائی حکومت کے تمام میگا پراجیکٹ اس بجٹ کا حصہ ہوں گے جن منصوبوں کیلئے پیسوں کی اشد ضرورت ہے ان منصوبوں کیلئے ترجیح کے طور پر پیسے جاری کئے جائیں گے اور جن منصوبوں پر کام کا آغاز نہیں ہوا ہے اور غیر ضروری ہیں اس قسم کے منصوبوں کو ترقیاتی بجٹ سے حذف کر دیا جائے گا صوبے میں ٹیکس کا ایک نیا اور متوازی نظام بھی لانے کی منصوبہ بندی ہے جس کی وجہ سے اگلا صوبائی بجٹ بہت سے شعبوں کیلئے خوفناک ہونے جا رہا ہے، اس اقدام سے صوبے میں لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور مقامی سرمایہ کاری کا تناسب بھی صفر ہو جائے گا۔