غیرمستحق افراد کی لوٹ ما

متاثرین سیلاب کی آڑ میں غیرمستحق افراد کی لوٹ مار

ویب ڈیسک : متاثرین سیلاب کی آڑمیں نوشہرہ اور چارسدہ کے ان علاقوں کے لوگ بھی اپنے بچوں سمیت امدادی کیمپوں میں پہنچ گئے ہیں جن علاقوں میں ایک فٹ کا سیلابی پانی بھی نہیں آیا ہے امداد کے عادی ان خاندانوں کے بارے میں مقامی لوگوں کو بھی کسی قسم کی معلومات نہیں لیکن اس کے باوجود یہ تمام لوگ مستحقین سے زیادہ امداد وصول کررہے ہیں موٹروے اور جی ٹی روڈ پر اس وقت درجنوں خاندان ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں تاہم ان میں سے زیادہ تر لوگ رات کے وقت اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں اور صبح سویرے موٹر کار، رکشا اور موٹرسائیکلز پر خواتین اور بچوں سمیت خیمے میں پہنچ جاتے ہیں اور دن بھر امداد کے انتظار میں رہتے ہیں.
جیسے ہی امداد لانے والے نظر آتے ہیں یہ تمام لوگ لپک کر ایک جگہ پر پہنچ جاتے ہیں بعض افراد امداد کے حصول کیلئے ایک یا دو بچوں اور ایک گائے یا بھینس کو لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ بعض خاندانوں نے خیمے بھی حاصل کر لئے ہیں اور خواتین کو بھی اس میں بٹھادیا ہے دوسری طرف اصل متاثرین اپنے گھروں اور دیہات کے باہر سڑک پر بیٹھے ہیں جبکہ امدادکے عادی افراد دریائے کابل سے متصل پانی اوردرختوں کے سامنے خیمے لگائے ہوئے ہیں متاثرین میں سے زیادہ تر ایک دوسرے کو نہیں جانتے ہیں جبکہ بعض کے بارے میں یہ بھی شکایات ہیں کہ وہ پشاور اور نوشہرہ کی خانہ بدوش بستیوں سے یہاں پر منتقل ہوئے ہیں اور ان کے گھروں کا کوئی نقصان نہیں ہوا ہے.
اس طرح چارسدہ میں سٹیشن کورونہ کے ساتھ قائم امدادی کیمپ میں بھی چارسدہ کے ان علاقوں کے لوگ آئے ہیں جہاں پر سیلاب نہیں آیا ہے پیر کے روز بھی یہ لوگ امداد کی تقسیم کے بعد موٹرسائیکلز اور رکشوں میں یہ سامان ڈال کر اپنے گھروں کو چلے گئے مقامی لوگوں کے مطابق سیلاب سے متاثرہ چارسدہ اور نوشہرہ کے زیادہ تر دیہات کے متاثرین کو ان کیمپوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں اور وہ پانی اترنے کے بعد گھروںاور دکانوں کی بحالی میں لگے ہوئے ہیں .
بعض سرکاری اداروں کی جانب سے بھی اس حوالہ سے شکوک وشبہات ظاہر کئے گئے ہیں تاہم تاحال کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ہے جس کی وجہ سے اصل مستحقین کی بجائے غیر متاثرہ لوگ یہ امداد لے کر بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  نوجوان سرکاری نوکریوں کے بجائے انٹرپرینیور بننے کو ترجیح دیں، بیرسٹر سیف