کیا کیا چراغ تھے کہ بہت دیر تک جلے

مشترکہ مفادات کونسل یعنی کونسل آف کامن انٹرسٹ (سی سی آئی) کی اب کیاوقعت رہ گئی ہے ؟ اس پرغور کرنے کااس سے بہتر وقت شاید کوئی نہیں ‘صوبہ خیبر پختونخوا نے صوبے میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ پربحث کے لئے کونسل میںتوجہ دلائو نوٹس جمع تو کرا دیا ہے مگروہ جوغالب نے کہا تھا کہ
قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
گرمی کے موسم میں لوڈ شیڈنگ کا اس قدر عذاب ہوتا وہ بات سمجھ میں پھر بھی آنے والی تھی لیکن شدید سردی میں اتنی شدید ‘بے مہار اور طویل وقفوں کی لوڈ شیڈنگ سمجھ سے بالکل باہر ہے’ پھر سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ نہ اعلان نہ اوقات کاتعین ‘ بس صبح ہوتی ہے اور کبھی آٹھ بجے’ کبھی نوبجے اور کبھی دس بجے سے جو بجلی غائب ہوتی ہے تو مڑ کر بعض اوقات دوبجے اوربعض اوقات تین بجے تک دیدار نہیں کراتی ‘ اوپرسے عوام کو خبردار کرنے کے لئے نہ کوئی خبر اخبارات کو جاری کی جاتی ہے نہ سوشل میڈیا پر ہی اطلاع دینے کی زحمت کی جاتی ہے گزشتہ دنوں ایک بارغلطی سے ایک اخبار میںمختلف گرڈ سٹیشنوں کے لئے ضروری مرمت اورتاروں کی تبدیلی کے بارے میں خبر نظرسے گزری ‘ فوراً پنے پر توجہ دی مگر اس میں جن دویا شاید تین دنوں کے دوران پیسکووالوں کی جانب سے عوام کے دکھ درد کا علاج کرنے کی نوید سنائی گئی تھی’ ان علاقوں میںاپنے گل بہار کاکوئی ذکر نہیں تھا’ مگر اگلی صبح سے لگا تارہم پربھی کرم فرمائی کی کوششیںکی گئی تھیں اورروزصبح دس بجے سے تین بجے تک بجلی سے ہمیں بھی محروم رکھنے کی سعی فرمائی جارہی ہے ‘ اس کالم کے لکھے جاے تک توصورتحال یہی ہے اب دیکھتے ہیں کہ مزید کتنے دن ہم پر کرم فرمائی (بغیرکسی پیشگی اطلاع) جاری رہتی ہے اس لئے کہ آپ جانتے ہیں بجلی نہ ہو توپانی بھی ندارد کہ ٹیوب ویل توچلتے ہی نہیں اور جب بجلی آتی ہے ‘ٹیوب ویل چل تو پڑتا ہے مگرپانی پھربھی کم از کم اگلے آدھ گھنٹے تک ہمیں نہیں ملتا ‘کیونکہ ٹیوب ویل سے ہمارے گھرتک کئی اورگھربھی ہیں اورجب تک پانی پہلے ان کے گھروں کو ”سیراب” نہیں کرلیتا ‘ تب تک ایک ایک بوند پانی کے لئے بھی ہم ترستے رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روزگل بہار نمبرچار میںرہنے والوں نے اس
شدید اور غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کا ڈول ڈالا ‘ اہالیان علاقہ کے مطابق بل جمع کرنے والوں کوبھی لوڈ شیڈنگ کاسامنا ہے’ جبکہ علاقے کے ایم پی اے بھی غائب ہے اوراسے عوام کی کوئی پرواہ نہیں ہے’ یہ توصرف ایک علاقے کی بات ہے جبکہ جن اخبارات تک ہماری رسائی نہیں ہے یعنی پشاور اور راولپنڈی ‘ اسلام آباد کے لاتعداد اخبارات بھی پشاورمیں ملتے تو ہیں جن میں شہر کے دیگرعلاقوں کے عوام اسی قسم کی احتجاجی خبریں شائع کروا رہے ہیں اوراپنے اپنے علاقے کے نہ صرف ممبران اسمبلی بلکہ لوکل کونسلز کے نمائندوں کے کردار پرنوحہ کناں ہیں ‘ اس لئے ہم اس ایک خبر کوہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں کے مصداق اپنے تبصرے کے لئے منتخب کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ شومئی قسمت سے ہم خود بھی گل بہار نمبر تین میں رہائش پذیر ہیں اور ہمیں بھی گزشتہ کچھ عرصے سے اسی صورتحال کا سامنا ہے جبکہ شہر کے دیگر علاقوں میں آباداپنے بعض کرم فرمائوں سے ملنے والی اطلاعات اسی نوع کی صورتحال کاباعث بن رہی ہیں۔ اب تولوگ پرانے دور کے مٹی کے بنے ہوئے چراغ (دیئے) ‘کیروسین آئل سے روشن ہونے والے لالٹین ‘ موم بتیوں وغیرہ کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو رہے ہیں یعنی وہ دن بھی دور نہیں جب لوڈ شیڈنگ کایہ عذاب دن کے اوقات سے آگے بڑھتے بڑھتے شاموں اور راتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گابلکہ لے چکا ہے کہ اس کالم کے بھیجنے سے پہلے جو رات ہم پربیتی اس میں بھی وقفے وقفے سے بجلی ندارد والی کیفیت تھی۔گویا صورتحال سیدہ فرخ رضوی کے اس شعر کی مانند چلتی ہے کہ
امید ‘ انتظار’ دعا ‘ خوش گمانیاں
کیاکیا چراغ تھے کہ بہت دیرتک جلے
خوش گمانیوں اوربد گمانیوںکے بیچ یہ جوخبر آتی ہے اسے لالی پاپ قرار دیا جائے یا پھر ٹرک کی اس لال بتی سے تشبیہ دی جائے جو رات کے اندھیرے میں امید کی کرن کی مانند لوگوں کواپنے پیچھے لگا کردوڑائی رہتی ہے مگر نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات ‘ یعنی مشترکہ مفادات کونسل میں یہ نکلے ہیں جبکہ صوبے میں مختلف ادوار کی حکومتوں نے کتنا زور لگایا کہ کم از کم قومی گرڈ سے اسی مشترکہ مفادات کونسل ہی کے اندر بارباراپنے حصے کی بجلی کے حصول میں کوٹہ مقرر کروانے میں کامیابی کے باوجود ہمارے صوبے کوکبھی اپنے کوٹہ کے مطابق ہی سہی ‘ بجلی نہیں ملی ‘ یاد رہے ہم ملک میں سب سے زیادہ پن بجلی پیدا کرتے ہیں اوراے این پی دور سے لے کر آج تک ہر دورحکومت میں مزید پن بجلی منصوبے لگ چکے ہیں جن کی وجہ سے کوٹہ بڑھ جانا چاہئے ‘ مگر جتنی بجلی مشترکہ مفادات کونسل میں پہلے ہی مقررکی جا چکی ہے اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا ‘ اور اب جبکہ سردیاں ہیں ‘ یعنی نہ پنکھے ‘ نہ ایئرکولر’ نہ ایئر کنڈیشنرز وغیرہ اور اس وقت یہ حال ہے توآنے والی گرمیوں میں کیا حال ہونے جارہا ہے ۔ ایسے میں بی ‘ بجلی سے بقول محسن نقوی یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ
آجا کہ ابھی ضبط کا موسم نہیں گزرا
آجا کہ پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے
خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک
اس شہر میں سب کچھ ہے بس اک تیری کمی ہے
وزیراعلیٰ محمودخان نے ابھی حال ہی میں وفاقی حکومت کے خلاف غالباً فنڈز کی عدم دستیابی پر پارلیمنٹ ہائوس کے باہر اپنے ارکان اسمبلی سے مل کر احتجاجی مظاہرہ اور دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا ‘ اب کیا وہ اپنے صوبے کے لئے مقررکردہ کوٹے کے حصول کے لئے ایک دھرنا بھی نہیں دھرنا بھی نہیں دے سکتے کیونکہ جہاں تک مشترکہ مفادات کونسل کاتعلق ہے تو اس میں عام طور پرمسائل کے حل کے لئے صورتحال فارسی کے ایک مقولے کے مطابق نشستند و گفتند وبرخواستند سے زیادہ کی کوئی چیزنہیں ہوتی ‘ بعض یاران نے اس میں نشستند و گفتند کے بعد(خوردند) تفنن طبع کے لئے کر رکھا ہے تاہم بقول مرزا غالب بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر ‘ یعنی جب لوگ کسی مسئلے کے حل(حل؟؟؟) کے لئے اکٹھے ہوںگے توگفتگوکے دوران چائے پانی تو چلتا ہی ہے اس لئے ہماری دانست میں تو یہ اضافہ زیادتی ہی ہے اور اس پراعتراض بھی بے جا کے زمرے میں آتاہے یعنی بقول پروین شاکر
آمد پہ تیری عطر وچراغ و سبو نہ ہو
اتنا بھی بود وباش کوسادہ نہیں کیا

مزید پڑھیں:  اتنا آسان حل۔۔۔ ؟