قابل غور تجاویز

پاکستان بزنس کونسل کی طرف سے درآمدی ایندھن کے استعمال میں کمی لانے کے لئے ہفتے میں تین روز گھر سے کام کرنے کی تجویز مناسب تو ہے لیکن مشکل امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں جب دفتروں میں حاضر ہو کر کام چوری کارجحان سر چڑھ بول رہا ہے تو گھروں میں رہ کر کام نمٹانے کی تو توقع ہی نہیں کی جا سکتی بہرحال یہ ایک احسن تجویز ہے جس پر نگرانی کے ساتھ عملدرآمد سے سرکاری کام بھی متاثر نہ ہوں گے اور عملہ بھی باسہولت اور ٹرانسپورٹ اخراجات کے بغیر کم وقت میں کام انجام دے سکے گااخلاص سے عملدرآمد ہوتویہ تجویزسونے پہ سہاگہ کے مصداق ہے۔ اس وقت پاکستان کو فوری درآمدی ایندھن کا استعمال کم کرنے کی ضرورت مسلمہ ہے انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے10نکات پر او ای سی ڈی ممالک عمل کررہے ہیں لہٰذا پاکستان کو بھی ان نکات پر عمل کرنا چاہیے۔پاکستان بزنس کونسل نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ ہائے ویز پر اسپیڈ کی حد10کلو میٹر گھنٹہ کم کرنی چاہیے اور ملک کے بڑے شہروں میں اتوار کو گاڑیاں نہ چلائی جائیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ سستا کی جائے چھوٹے فاصلے پیدل یا سائیکل پرطے کیا جائے۔کرنے کو تو بہت کچھ ممکن ہے لیکن مشکل امر یہ ہے کہ ہم من حیث القوم قرض کی مے پینے اورفاقہ مستی کے عادی ہیں کیا حکمران اور کیا عوام ہمارا بس چلے تو چار ٹر طیاروں سے نہ اترین اور لگژری گاڑیوں کے علاوہ کوئی اور گاڑی نہ رکھیں اس طرح کا قومی رویہ ہی آج ہمیں مقروض بنایا ہے اور خدانخواستہ ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات کا ا ظہار کیا جارہا ہے اس کے باوجود بھی چارٹر طیاروں میں سفر کرنے اور تعیشات سے دستبرداری توکجا اس میں کمی لانے کے بھی روادار نہیں صورتحال کا تقاضا ہے کہ اس حوالے سے قومی سطح پر شعور بیدار کرنے کی مہم شروع کی جائے اور ان چیزوں کوباعث فخر گرداننے کی بجائے باعث ندامت اور عبث چیز گردانا جائے حکمران چھوٹی گاڑیوں کے استعمال کی سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم کے دور کی یاد تازہ کریں بیورو کریسی سے بڑی گاڑیاں واپس لے کر ان کوچھوٹی گاڑیاں دی جائیں سرکاری افسروں سے الگ الگ گاڑیاں واپس لے کر ان کو دفتر لانے لے جانے کے لئے وین لگائے جائیں ان کو پٹرول کی فراہمی بند کی جائے ۔ سخت اور عملی اقدامات نہ کئے جائیں تو خدانخواستہ پانی سر سے اونچا ہو جائے گا اور ملک مشکلات سے نہیں نکل سکے گا جن کی سزا بالاخر ہم ہی کوبھگتنا ہوگی۔
لوٹ مار کی دُھائی
ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل میں طورخم روڈ پر مچنی چیک پوسٹ کے قریب پولیس کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کے موقع پر مظاہرین کا کہنا تھا کہ پولیس ٹرانسپورٹروں کو چیک پوسٹوں پر بے جا تنگ کرتی ہے مظاہرین کے مطابق خیبر بالخصوص لنڈی کوتل میں طورخم ودیگر مقامات پر پولیس اہلکاروں کی جانب سے ٹرانسپورٹروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا سلسلہ جاری ہے اور اس مکروہ دھندے پرحکام نے بھی چپ سادھ لی ہے۔یہ پہلی شکایت نہیں اور نہ ہی پہلی مرتبہ مظاہر ہ کیاگیا ہے یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے جس کے حوالے سے حکام بھی لاعلم نہیں مگر چونکہ اس سارے عمل میں مقامی پولیس کے علاوہ بڑی بڑی شخصیات اورحکام بھی بالواسطہ طور پر ملوث بتائے جاتے ہیں اس لئے شنوائی نہیں ہو پاتی یہ نہایت سنگین مسئلہ اور ٹرانسپورٹ و کاروباری طبقے پر ظلم کے مترادف ہے جس سے ان کو جلد سے جلد نجات دلائی جائے ۔
مہنگائی میں مزید اضافہ
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی پیمائش کے حساس قیمت انڈیکس میں بتایا گیا کہ خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ29دسمبر کو ختم ہونے والے ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں29.30فیصد اضافہ ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق ہفتہ وار کی بنیادوں پر توانائی کی قیمتوں میں کمی کے باوجود خوراک کی اشیا بالخصوص گندم کا آٹا اور پیاز سمیت دیگر سبزیوں کی قیمتوں میں گزشتہ ہفتے کے دوران کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔خیال رہے کہ اس سے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ(آئی ایم ایف)نے بھی اپنی حالیہ رپورٹس میں تقریباً اسی طرح کے تخمینے لگائے تھے۔ہر ہفتہ واررپورٹ میں اعداد وشمار سے اشیائے صرف کے مہنگا ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔رواں مالی سال کے بجٹ میں بھی زیادہ سے زیادہ مہنگائی کا تخمینہ گیارہ فیصد لگایا گیا تھا لیکن اب عالم یہ ہے کہ اس کی شرح تخمینے سے دوگنا سے بھی بڑھ چکی ہے وزارت خزانہ بجائے اس کے کہ مہنگائی میں کمی کے لئے کوئی جتن کرے ان کاکام مہنگائی میں اضافے کا مژدہ سنانا رہ گیا ہے جس کے وزیر خزانہ بننے سے معیشت کی بہتری اور مہنگائی میں کمی کی امید کی جا رہی تھی اس جادوگر کاجادو بھی نہ چل سکا حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی بھی مہنگائی اور شدید مصنوعی مہنگائی کی ایک بڑی وجہ ہے عوام آخرکسے دہائی دیں کس سے فریاد کریں۔

مزید پڑھیں:  جو اپنے آپ سے شرمندہ ہو خطا کر کے