شہید پولیس اہلکار کی بیوہ کے قاتل

آٹاڈیلر اورشہید پولیس اہلکار کی بیوہ کے قاتل کون؟

(نعمان جان)جرائم کی بیخ کنی اور اندھے قتل کے کیسز کا کھوج لگانے میں تفتیش ریڑھ کی ہڈی کا حیثیت رکھتی ہے اور اسی بناپر اصل ملزموں تک پہنچا جاسکتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور سی سی ٹی وی کیمروں کی دستیابی کی وجہ سے پولیس کی تفتیشی ٹیموں کیلئے مختلف جرائم خصوصاََ اندھے قتل کے کیسز کا سراغ لگانے میں آسانی پیدا ہوگئی ہے اور پولیس جدید خطوط پر تفتیش کرکے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا سکتی ہے تاہم بعض اوقات ناقص تفتیش اور تفتیشی ٹیم کی عدم دلچسپی پورے کیس کو نہ صرف مشکوک بنالیتی ہے بلکہ اس کا فائدہ ملزمان کوپہنچتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ آئے روز جیلوں سے ملزمان یا توضمانتوں پر رہا ہوجاتے ہیں یا پھر مقدمات سے بری ہوجاتے ہیں جس سے انصاف کے پورے نظام پر سوالات اٹھتے ہیں۔ ڈکیتی، راہزنی اور اندھے قتل کی وارداتوں کو ٹریس کرنا پولیس کیلئے بھی بڑا چیلنج ہوتا ہے۔پشاورپولیس نے حال ہی میں قتل کی کئی وارداتوںمیں ملوث ملزمان کا سراغ لگایا ہے تاہم متعدد کیسزاب بھی پولیس کی نظر سے اوجھل ہیں۔
گزشتہ ماہ جنوری میں تہکال کے علاقہ میں جواں سال آٹا ڈیلر کو نامعلوم افراد نے دکان کے اندر فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی ملزمان کا کھوج نہیں لگایاجاسکا اور یہ کیس ایک معمہ بن چکا ہے۔ مقتول کو کس نے اور کیوں قتل کیا؟تاحال پولیس کی جانب سے کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ تہکال پولیس کے مطابق قتل کا واقعہ پلوسئی تلرزئی کے علاقہ میں پیش آیاہے جہاں دوپہر کے وقت جواد ولد حضرت گل دکان میں موجود تھا اس دوران موٹرسائیکل پرسوار نامعلوم افراد نے آکر انہیں گولیاں ماردیں۔ مقتول کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کی عمر 24یا25 سال تھی اور وہ غیرشادی شدہ تھا۔ تہکال پولیس نے بتایا کہ مقتول جواد نے گھر میں آٹے کی مشین لگا رکھی تھی اور اس طرح گھر میں آٹا تیار کرکے وہ دکان میں فروخت کرتا تھا۔ کیس میں کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی تاحال قاتلوں سے متعلق شواہدنہیں ڈھونڈے جاسکے۔ پولیس نے مقتول کے والد حضرت گل کی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف رپورٹ درج کررکھی ہے۔
بعض کیسز میں پولیس کی جانب سے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ ورثاء ایسے کیسز میں دعویداری نہیں کرتے جس کی وجہ سے ملزمان پر ہاتھ ڈالنا ان کیلئے مشکل ہوجاتا ہے۔ قتل کا ایسا ہی ایک کیس یکہ توت کے علاقہ میں پیش آیا ہے جہاں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے ایک بیوہ خاتون کی جان لی ہے۔ اس کہانی کا دردناک پہلو یہ ہے کہ مقتولہ شہید ہونے والے پولیس رائیڈراسکواد کے اہلکار کی بیوہ تھی اور اس کے شوہر کو بھی نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیاتھا اور تقریبا َدو سال گزرنے کے بعد بھی شہید کے قاتلوں کا کوئی کھوج نہیں لگایا جاسکا۔ واقعہ سے متعلق تھانہ آغامیر جانی شاہ پولیس کو رپورٹ درج کراتے ہوئے 26 سالہ مسماة عائشہ دختر دوا جان نے بتایا کہ اس کی 35سالہ بہن مرینہ بیوہ نیاز محمد پشاورکے علاقہ وزیرباغ میں رہائش پذیر تھی جو دوسرے گھر منتقل ہورہی تھی۔ اس دوران گھر شفٹ ہونے کی خاطر وہ گھر سے نکل کرجارہی تھی کہ فدا آباد کے علاقہ میں نامعلوم افراد نے ا س پر فائرنگ کردی جس سے وہ جان کی بازی ہارگئی۔ مدعیہ نے بتایا کہ انہیں بہن کے قتل کی اطلاع ایل آرایچ ہسپتال سے ملی جس کے بعد وہ دوڑتی ہوئی ہسپتال پہنچی۔ پولیس کے مطابق مقتولہ کا شوہر نیاز محمد پولیس رائیڈراسکواڈکا اہلکار تھا۔ نیاز کو مارچ 2021میں گلبہار کے علاقہ فیصل کالونی میں اس وقت قتل کیا گیا جب وہ موٹرسائیکل پر معمول کی گشت پر تھا، اس دوران نامعلوم مسلح افراد کوروکنے کا اشارہ کرنے پر وہ فرار ہوگئے تھے جس پرپولیس نے بھی تعاقب کیا تاہم ان پر فائرنگ کی گئی۔نیاز کے قتل کے بعد مقتولہ بیوہ کی حیثیت سے زندگی گزاررہی تھی۔ نیازمحمد کی عمربھی اس وقت 35سے 37سال تھی جبکہ مقتولہ کی عمر بھی 35سال بتائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے یکہ توت پولیس نے بتایا کہ مقتولہ کے والد اور والدہ بھی وفات پاچکے ہیں اور ان کی دو بہنیں اور ایک بھائی ہے تاہم بھائی بھی ان سے لاتعلق رہتا ہے اور وہ اس کیس میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا رہا ہے۔ شوہر کے قتل کے بعدمقتولہ مرینہ کو شہید پیکیج کے تحت رقم ملی تھی اور انہی پیسوں سے گھر خرید کر وہ اپنی گزر بسر کررہی تھی۔ پولیس نے شک ظاہر کیا ہے کہ مقتولہ کے قتل کیس میں ایک قریبی رشتہ دار ملوث ہے تاہم ورثاء کی جانب سے اس پر دعویداری نہیں کی جارہی ہے کیونکہ اس کی دو بہنیں دشمنی مول نہیں لینا چاہتیں۔
دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں لوگ پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کرتے۔ بیشتر کیسز میں یا تو غلط بندوں پر دعویداری کی جاتی ہے جس کی وجہ سے پورا کیس خراب ہوجاتا ہے یا پھر دعویداری نہ ہونے کے باعث کیس میں پیش رفت ہی نہیں ہوپاتی۔ ہمارے معاشرہ میں جرگے کا بھی رواج ہے اور ایسے کیسز میں جرگہ کرکے متاثرہ افراد کو صلح کیلئے مجبور کیاجاتا ہے۔ دشمنی اور مزید خونریزی کے ڈر سے بھی بعض لوگ دعویداری نہیں کرتے جس کی وجہ سے ملزمان آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں۔ دعویداری کی وجہ سے کئی سالوں تک عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں جبکہ جان کو بھی خطرہ لگا رہتا ہے تاہم اس تمام صورتحال میں تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ یہ توجہ طلب سوال ہے۔ یکہ توت بیوہ کے قتل کیس میں اگر خواتین اس وجہ سے دعویداری نہیں کررہی ہیں کہ وہ کمزور ہیں اور مخالفین کا مقابلہ نہیں کرسکتیں تو پھر ایسے میں ریاست اور پولیس کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ کیا قاتل ایسے ہی دندناتے پھریں گے؟ پہلے اس کے شوہر کو شہید کیا گیا اور اب اس کی بھی جان لی گئی ہے، ایسے مظالم آخر کب تک ہوتے رہیں گے ؟مقتولہ منوں مٹی تلے جاسوئی ،لیکن کیا مقتولہ بیوہ کے ورثاء کو انصاف مل سکے گایا یہ کیس بھی محض فائلوں تک محدود رہ جائے گا؟

مزید پڑھیں:  خیبرپختونخوا میں نگران دور کے 1800ملازمین فارغ کرنے کا فیصلہ