اسلحے کی مارکیٹ

افغانستان امریکی اور نیٹو اسلحے کی بڑی مارکیٹ جبکہ طالبان ڈیلر بن گئے

ویب ڈیسک: امریکا کا افغانستان میں چھوڑا جانے والا اسلحہ امریکا کے ہی اتحادیوں کے خلاف افغانستان کے دور افتادہ علاقوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ جنوبی اور مشرقی علاقوں میں اسلحہ مارکیٹیں دیکھنے میں آرہی ہیں جہاں طالبان امریکی خودکار ہتھیاروں کا کاروبار کرنے میں مصروف ہیں۔ ان ہتھیاروں کےساتھ ساتھ وہ روس، چین، پاکستان اور آسٹریا کے "ہارڈ ویئر” کی فروخت بھی بلا خوف و خطر کر رہے ہیں جبکہ بیچے جانے والے اس اسلحے سے ہونے والی آمدنی دہشت گردی کے پھیلاؤ میں استعمال ہو رہی ہے۔
اسلحے کے یہ عارضی بازار راکٹ لانچر ، گولہ بارود، نائٹ ویژن گاگلز اور سنائپر رائفلز کی فروخت سے کثیر منافع کما رہے ہیں۔ اس اسلحہ کی خرید و فروخت افغان کرنسی اور ڈالر میں کی جاتی ہے اور اس کی سپلائی اور قیمتوں میں حالیہ اضافہ بین الاقوامی اسلحہ ڈیلرز کے زیر کنٹرول ہے۔ ایک ایم 4 رائفل کم و بیش 2400 امریکی ڈالرز کے عوض فروخت ہوتی ہے جبکہ پاکستان اور افغانستان میں اکثر استعمال ہونے والی ”اے کے 47” کی قیمت 130 امریکی ڈالرز ہے۔ اسلحے کی یہ نئی دوڑ عالمی امن کیلئے ایک نئے چیلنج کےطور پر سامنے آئی ہے۔ طالبان اور القاعدہ کے یہ حلیف آج کل کی اسلحہ سمگلنگ مارکیٹ میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
ریاست کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں ٹی ٹی پی پاکستان کے قبائلی اضلاع اور بلوچستان کے علیحدگی پسند بلوچستان کے مُختلِف علاقوں میں پاکستانی فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف ان ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ ٹی ٹی پی ڈرامائی ویڈیوز میں پاک فوج اور پولیس کے خلاف یہ ہتھیار، نائٹ ویژن گاگلز اور تھرمل سائیٹس کا استعمال کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ افغان پیس واچ کے مطابق سپیشل فورسز کو اس اسلحہ اور سازو سامان کی ترسیل اس اسلحہ کی مانگ میں زبردست اضافے کا سبب بنی ہے۔ رپورٹ میں پاکستان سے ملحق صوبہ ننگر ہار میں طالبان کے مطابق نائیٹ وژن سائیٹ کی قیمت 500 سے 1000 ڈالرز کے درمیان ہے۔
ان ہتھیاروں اور نائٹ ویژن گاگلز کی وجہ سے پاکستان کے شورش زدہ علاقوں میں دہشت گردوں کی سرکوبی میں خاصی مشکلات پیش آتی ہیں۔ افغان آرمی کے سابق جنرل یاسین ضیاء کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے مابین ہونے والی ڈیل کے نتیجے میں طالبان کو افغانستان کے شمالی حصوں میں بھیجا گیا جہاں وہ ان ہتھیاروں سے لیس ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو مقامی آزادی پسند عناصر کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
افغان پیس واچ اور سمال آرمی سروے کی تحقیق کے مطابق اسلحے کی یہ مارکیٹیں افغانستان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں موجود ہیں اور افغانستان سے اسلحہ کا حصول ممکن بناتی ہیں۔ افغان حکومت کی جانب سے اسلحہ کی درآمدات پر سخت کنٹرول ایسے اسلحہ کی قیمت میں اضافے کا سبب بنا ہے۔

مزید پڑھیں:  وزارتوں اور ڈویژنز کو پروفیشنلز کی تلاش کا اختیار مل گیا