پارلیمان سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار

پارلیمان سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے 19 جون کو محفوظ کیا ہوا فیصلہ متفقہ طور پر سنایا۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ آئین کے خلاف ہے۔ فیصلہ سنانے والے ججز میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کا تحریری حکمنامہ بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے 87 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ہے۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون کو کالعدم قرار دینے میں عدالت بہت محتاط رہتی ہے، سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کا جائزہ آئین کے ساتھ لیا گیا اور ہر ممکن کوشش کی کہ دیکھا جائے کہ ریویو ایکٹ آئین سے ہم آہنگ ہے یا نہیں۔ سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ عدالت اسی نتیجے پر پہنچی ہے کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ واضح طور پر آئین کی بیشتر شقوں کے خلاف ہے، یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قانون کو آئین سے ہم آہنگ قرار دیا جائے۔
ہم نے آئین کا تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ فیصلہ کے مطابق ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو اسطرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو، اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا۔ سائیلن سپریم کورٹ سے رجوع کرنا شروع کر دیں گے۔ اس بات کو سامنے رکھے بغیر کہ جو فیصلے دیئے گئے ان پر عملدرآمد بھی ہوچکا۔ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی۔ طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا اور سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ہمارے ذہنوں میں کوئی شک نہیں کہ مجوزہ قانون کا اصل مقصد آرٹیکل 184/3 کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینا تھا، اس سوال کا جواب کہ پارلیمنٹ بینچز کی تشکیل سے متعلق قانون بنا سکتا ہے نفی میں ہوگا۔ چیف جسٹس نے تفصیلی فیصلے میں 5 رکنی لارجر بینچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 5 رکنی لارجر بینچ طے کر چکا ہے ماسٹر آف دا روسٹر چیف جسٹس ہے، سپریم کورٹ قانون میں تبدیلی نہیں کرسکتی اور آئین واضح کر چکا ہے کہ تمام فریقین عدالتی فیصلوں پر عمل کے پابند ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی 6 سماعتیں کرنے کے بعد 19 جون کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ اٹارنی جنرل نے درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کی تھی جبکہ درخواست گزار پی ٹی آئی نے اس قانون سازی کے لئے آئینی ترمیم لازم قرار دینے کا مدعا پیش کیا تھا۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے اس معاملے کی سماعت کی تھی۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کی 7 شقیں ہیں۔

مزید پڑھیں:  رسالپور میں فائرنگ کا تبادلہ : پولیس اہلکار زخمی ،رہزن ہلاک