تجارتی بھتہ خوری کا منظم نیٹ ورک

پاکستان ایک گنجان آباد ملک ہے اس کی زیادہ تر آبادی اب بڑے بڑ ے شہروں میں رہائش پذیر ہے شہروں کا نظم و نسق عمومی طور پر میونسپل کمیٹیاں ،ضلعی انتظامیہ اور کارپوریشن چلاتی ہیں کراچی ،لاہور، پنڈی ، پشاور ، فیصل آباد ، ملتان ، حیدرآباد اور دیگر بڑے شہروں میں رہائش پذیر افراد کی تعداد کروڑوں میں ہے اس آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دنیا کی دیگر شہروں کی طرح منظم منصوبہ بندی نہیں کی گئی اس لیے یہ سب شہر روایتی انتظامی ترتیب سے چل رہے ہیں ان شہروں میں بازاروں میں کسی قانون کی پاسداری نہیں ہوتی دکانیں اپنے حدود سے باہر فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ جمالیتی ہیں اور زیادہ تر فٹ پاتھ ان دکانداروں نے اسٹال والوں یا ریڑی بانوں کو دن کے حساب سے کرائے پر دئیے ہوئے ہیں ان مارکیٹوں اور بازاروں میں جہاں جہاں پارکنگ ہے وہ قبضہ مافیا ضلعی انتظامیہ کی آشیرباد سے قبضے میں لے کر عام عوام کو لوٹ رہے ہیں پھر ہر شہر میں کچھ مخصوص بازاروں اور جگہوں کو مقامی بھتہ خوروں نے افغان شہریوںکو دیا ہوا ہے جو روزانہ کا بھتہ لے کر ان سے وہاں کاروبار کرواتے ہیں جس سے اس علاقے کے شہریوں کی زندگی بہت مشکل ہوگئی ہے یہ غیر قانونی قبضہ گیر راستے بند کردیتے ہیں ان کی وجہ سے پیدل راہ گیر اور گاڑیوں کو وہاں سے گزرنے میں شدید مشکلات ہوتی ہیں اور ان کی وجہ سے ان علاقوں میں گندگی کے ڈھیر لگ جاتے ہیں پھر یہ غیر قانونی سودا فروش من مانے ریٹس پر چیزیں اور سبزی اور پھل بیچتے ہیں اور دھوکہ دہی بھی کرتے ہیں اس ملک میں افغان شہریوں نے ہمارے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو بھتہ خوری کی لت لگا دی ہے اور یہ مسئلہ بہت تیزی کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے اب تو ہر شہر میں ان کے اپنے اپنے چھوٹے چھوٹے شہر بن چکے ہیں جہاں جاکر ایسا لگتا ہے کہ ہم افغانستان آگئے ہیں پشاور کا بورڈ بازار اس کی ایک مثال ہے کسی دن وہاں سے گزر کردیکھیں آپ کو پاکستان میں موجود انتظامیہ کی ساری اصلیت سمجھ آجائے گی کیسے ممکن ہے کہ جس شہر میں پولیس ہے ڈپٹی کمشنر ہے اور اسسٹنٹ کمشنروں کی ایک فوج ہے پی ڈی اے کا مکمل نظام موجود ہے فوڈ انسپکٹر ہیں وہاں ایک بہت بڑے رقبے پر سرکاری سڑکیں جو عوام کی آمد و رفت کے لیے بنائی گئی ہیں ان پر ہزاروں کی تعداد میں غیر قانونی طور پر افغان شہریوں کا قبضہ ہے اور دنیا کا ہر دو نمبر کام وہاں ہوتا ہے آپ کو ڈالر درکار ہیں وہاں سے آپ کو مل سکتے ہیں اگر آپ ڈالر فروخت کرنا چاہتے ہیں وہاںجاکر بیچ دیں آپ کو منشیات درکار ہیں وہاں جائیں آپ جس قسم کا نشہ کہیں وہ آپ کو مل جائے گا مردہ مرغیاں سرعام فروخت ہوتی ہیں ،دنیا کی تمام دو نمبر اشیاء بلا کسی روک ٹوک مل جائیں گی ، انڈیا کی بنی دوائیاں آپ کو مل جائیں گی اور یہ افغان شہری جو کچرا اور گندگی ان کے پاس جمع ہوتی ہے وہ اٹھا کر ساتھ بہنے والی نہر میں ڈال دیتے ہیں کوئی پرسان حال نہیں ہے گوشت اور سبزی اور پھلوں کے نرخ ناموں سے کہیں زیادہ من مانی قیمت وصول کی جاتی ہے سڑک کنارے کمپیوٹر لگا کر بیٹھے یہ افغان شہری معصوم بچوں کے موبائلوں میں فحش فلمیں سو پچاس روپے لے کر ڈالتے ہیں مگر مجال ہے کہ کوئی پوچھنے والا ہو جب ان سے پوچھیں کہ ان کو کس نے اجازت دی ہے تو وہ سرعام کہتے ہیں کہ ہم دن کے اتنے روپے دیتے ہیں یہ پیسے حکومت کے خزانے میں جمع نہیں ہوتے بلکہ اشخاص کی جیبوں میں جاتے ہیں پشاور میں کئی دیگر جگہیں بھی ہیں جیسے کارخانوں مارکیٹ ، ابدارہ روڈ کینال ٹاؤن روڈ ارباب روڈ وغیرہ شاید اس کے علاوہ بھی بہت سارے مقامات ہوں گے جہاں یہ غیر قانونی طور پر اس ملک میں رہائش پذیر افغان شہری ملک کے قانون کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں اور انہوں نے شہر کے باسیوں کی زندگی نرگ بنا دی ہے پھر یہی افغان شہری پاکستان کے بارے میں وہ بکواس کرتے ہیں کہ اس کا یہاں تذکرہ بھی ممکن نہیں ہے ان جگہوں پر دیگر غیر اخلاقی کاموں کا سلسلہ بھی جاری وساری ہے ایک اور مسئلہ افغان ٹرانس جینڈرز کا بھی ہے جو پشاور میں اقبال پلازہ اور دیگر جگہوں پر اس قوم کے نوجوانوں کو اخلاقی طور پر تباہی کے دھانے پر پہنچا چکے ہیں اب تو سننے میں آیا ہے کہ ٹرنس جینڈر کا روپ دھار کر افغان مرد بھی اس دھندے میں شامل ہوگئے ہیں دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں قوموں نے جب ترقی کا سفر شروع کیا تو سب سے پہلے اپنے بازار اور راستوں پر قانون کی عملداری کا نفاذ کیا اس سے زیادہ لوگ ڈسپلن ہوئے اس لیے جب ہم یورپ امریکہ جاپان چین جنوبی کوریا ہانگ کانگ اور دیگر علاقوں میں جاتے ہیں تو وہاں ہمارا واسطہ ان بازروں اور راستوں پر چلنے والے لوگوں سے پڑتا ہے وہاں کی صفائی اور انتظام دیکھ کر ہمیں ان کی ترقی کا پتہ چلتا ہے ہمارے ہاں جب کوئی باہر سے آتا ہے تو وہ ہمارے بدنظمی اور گندے ماحول کو دیکھ کر ہماری جہالت اور پسماندگی کا اندازہ لگاتا ہے اس لیے ہمیں اب ترقی کا سفر شروع کردینا چائیے اور اس بھتہ خوری کو ختم کرکے جہاں کاروبار کی قانونی اجازت ہو وہاں کاروبار اور جوجگہیں عوام کی سہولت کے لیے ہیں ان کو اسی طرح رہنے دینا چائیے اور صفائی کا ہر حال میں خیال رکھنا چائیے ،ملک میں منشیات کے اس آسان دستیابی کو ختم کردینا چائیے اور ان افراد کے ساتھ سختی سے نمٹنا چائیے جو اس مکروہ دھندے میں شریک ہیں یا ان کے الہ کار ہیں ،لاقانونیت کو پہلے بازاروں اور راستوں سے غائب کردیں یہ زندگی کے دوسرے شعبوں سے خود بخود ختم ہوجائے گی اس ملک میں ہر کوئی ہر جگہ اس ملک کے عوام کو لوٹ رہا ہے تو کیسے اس کا نظام بہتر ہوگا آپ کارخانوں مارکیٹ جائیں تمام دوکاندار ایکسپائر ڈاشیاء سرعام فروخت کررہے ہیں جنسی قوت بڑھانے والی ادویات اور دیگر اشیاء سرعام فروخت ہورہی ہیںآپ اپنے بچوں اور گھر کی خواتین کے ساتھ وہاں سے گزر نہیں سکتے کیا یہ سب بند کرنا مشکل کام ہے مگر یہ اس لیے بند نہیں کیے جاتے کہ کچھ افراد ان غلط کام کرنے والوں سے روزانہ بھتہ لیتے ہیں ، قانون کی رو سے کسی بھی پلازہ میں پارکنگ ہونی چائیے اور یہ خریداروں کو فری پارکنگ کی سہولت ہوگی مگر آپ جائیں اور دیکھیں ہر جگہ ایک پرچی کی کتاب لیے بندہ بیٹھا ہوتا ہے اور آپ سے سو روپے لے رہا ہوتا ہے اور جو پرچی دے رہا ہوتا ہے اس میں لکھا ہوتا ہے کہ گاڑی چوری ہونے یا کسی نقصان کے ذمہ دار وہ نہیں ہوں گے یہاں مجھے انگریزوں کے دور میں ایک افسر کا واقعہ یاد آگیا کہ پشاور میں افغانستان سے جانور فروخت کے لیے آتے تھے جس کی صبح سویرے منڈی لگتی تھی انگریزی افسر کے پاس ایک افغانی تاجر شکایت لے کر گیا کہ مجھ سے دو روپیہ رشوت لی گئی ہے انگریز افسر نے ایک گھنٹے میں شہر کی منڈی کے انتظامی لوگوں کو جمع کیا اور اس بندے کی شناخت کرنے کے بعد اس بندے کو گدھے پر بیٹھا کر اس کا منہ کالاکروا کر سات دن تک پورے شہر میں گھمایا اور اس تاجر کو اس ہرکارے کی پوری مہینے کی تنخواہ جو سولہ روپے بنتی تھی وہ دے دی اس کے بعد پھر کہتے ہیں کہ پاکستان بننے تک کسی نے کسی تاجر سے کوئی پیسہ نہیں لیا اس ایک انگریز افسر کی جگہ آج ہزاروں افسر موجود ہیں وہ غیر مسلم تھا آج سارے خدا کے فضل وکرم سے حاجی ہیں ،اس خرابی میں افغان مہاجروں کی آمد کے بعد بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے تو یہ شہر کا سب سے فائدہ مند کاروبار ہے یعنی روز کا کا دھندہ جس میں سب شریک کار ہیں اس سے ہمارے شہر خراب ہورہے ہیں لوگوں کے ذہن خراب ہورہے ہیں ہم ترقی کی جگہ تنزلی کی طرف جارہے ہیں اور ہمارا تشخص عالمی طور پر بگڑ رہا ہے نسل کی نسلیں رشوت خوری اور بھتہ خوری کی عادی ہوچکی ہیں یہ صورتحال کراچی میں تو بہت گھمبیر ہے لیکن ملک کے دیگر بڑے شہر بھی اب اس کی مکمل لپیٹ میں ہیں اس لیے اگر سیاست سے فرصت ملے تو ان شہروں پر توجہ دیں اور قانون کی عملی نفاذ پر توجہ دیں اس لیے کہ یہ بدنظمی جب عادت بن جاتی ہے تو ملک فساد کے نذر ہوجاتے ہیں پھر فساد میں لوگ فائدے ڈھونڈتے ہیں اور امن قائم کرنے میں لوگوں کو اپنا نقصان نظر آتا ہے اس لیے اس کا تدارک ضروری ہے اور فوری ضروری ہے افغان شہریوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیں تاکہ یہاں لوگ سکون کی سانس لے سکیں اخلاقی بیماریوں سے لوگ نجات حاصل کرسکیں پاکستانی نوجوان کو روزگار کے مواقع ملیں اور ملک کے وسائل پر بوجھ کم ہو ملک کے ہسپتالوں اور تھانوں میں رش ختم ہوجائے شہروں میں گندگی کا خاتمہ ہو اور ملک سے ڈالر افغانستان لے جانے والے نہ رہیں ورنہ اگلے چند ماہ میں آپ دیکھیں گے کہ ڈالر تین سو پچاس کا ہوگا اور زندگی آج سے کہیں زیادہ مشکل اور بدتر صورت میں ہوگی ۔

مزید پڑھیں:  دوگز زمین اور گڑے مر دے