خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں

معاشرتی مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب اعلیٰ اقدار زوال پذیر ہوجائیں جبکہ سماجی مسئلے کی صورت یہ کہلاتی ہے کہ جب آبادی کی کثیر تعداد ناپسندیدہ صورتحال سے دو چار ہو ہر دو مسائل ناپسندیدگی اور مشکلات سے عبارت ہوتی ہیں سماجی مسائل ہوں یا معاشرتی یہ دونوں معاشرے اور افراد کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہیں کسی بھی قوم کی ترقی کا زینہ اس کی اخلاقی حالت اور اخلاقیات ہوتی ہے جس سے ہم واقف ہی نہیں ہمارے معاشرے سے اخلاقی اقدار تقریباً رخصت ہو چکی ہیں اور تھوڑی بہت جو موجود بھی ہیں وہ بھی جدید تہذیب اورنئی نسل کی نذر ہو رہی ہیں والدین کا احترام بزرگوں کی عزت بچوں پر شفقت ایمانداری خوش اخلاقی ملنساری مروت اب نام کی بھی نہیں رہیں اس کی جگہ قول و فعل کا تضاد جھوٹ دھوکہ دہی اور مکر و فریب نے لے لی ہے یہ ایسے رذائل ہیں جن کے ہوتے ہوئے قوم خواہ کتنی ہی علوم سے بہرہ ور ہو کتنی ہی مالی و زمینی وسائل سے مالا مال ہو کتنی ہی افرادی قوت کی بہتات ہو ترقی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی معاشرتی مسائل ترقی کو نہیں زوال کو دعوت دیتی ہیں اور زوال کی نشانیاں ہیں دور حاضر میں ہمارا ایک نہایت ہی سنگین مسئلہ جدید علوم سے ناواقفیت اور جہالت ہے اس حقیقت سے آکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ جدید ترین علوم اور ٹیکنالوجی کے حصول کے بغیر کسی بھی معاشرے کی ترقی کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ دور جدید میں دنیا کی قیادت خود بخود ان ممالک کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے جو جدید علوم حصول ٹیکنالوجی مصنوعی ذہانت اور آئی ٹی کے شعبے میں کمال مہارت کے حامل ہوں جن ممالک نے اس شعبوں میں ترقی کی ہے ان ممالک میں معیار زندگی بلند اور غربت کم سے کم ہے ان کی قوت خرید کافی زیادہ ہے اور زندگی کی سہولیات میسر ہیں تعلیم و صحت کے شعبے ہوں یا دیگر شعبہ ہائے زندگی ہو میدان میں وہ آگے ہیں اس معاشرتی کشمکش کے اثرات دنیا بھر میں نظرآتی ہیں تو دنیا بھر کے جو ہر قابل ان معاشروں کی طرف رجوع کرتی ہے اور ان ممالک کی ترقی میں شامل ہو کر اپنا حصہ ڈالتی ہے یوں یہ معاشرے آگے بڑھتی ہیں اور جن معاشروں سے یہ لوگ نکلتے ہیں وہ معاشرے بانجھ ہوتی جارہی ہیں دنیا بھر کے سرمایہ دار اور کاروباری افراد و متمول ا فراد کا بھی ان معاشروں کی طرف کھچے چلے جانا کوئی راز نہیں محولہ کسوٹی پر پاکستان کو پرکھیں تو مایوسی ہونے لگتی ہے یہاں کا معاشرہ جوہر قابل سے ہی خالی نہیں ہو رہا ہے ملکی معیشت قرضوں کے بوجھ اور مہنگائی میں دبتا اور ڈوبتا جا رہا ہے جہاں ہر طرف مشکلات اور مایوسیاں ہوں وہ معاشرے ترقی نہیں کر سکتے ترقی کیلئے مساوی مواقع اور اچھا ماحول ضروری ہوتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے معاشی مسائل اور مشکلات ہر چیز پر بھاری اور دبائو کا باعث بن رہی ہیں قیام پاکستان کے بعد جو معاشی پالیسیاں مرتب کی گئیں وہ بھی زیادہ کار آمد ثابت نہ ہو سکیں کیونکہ معاشی مشکلات پاکستان کوورثے میں ملی تھیں دوسری جانب غیر مناسب اور ناپائیدار معاشی پالیسیاں ان مشکلات میں مسلسل اضافہ کا باعث بن رہی ہیں اور پاکستانی معیشت پر دبائو میں اضافہ ہی ہو رہا ہے پاکستان میں معاشی اور سماجی مسائل دونوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے جس کی وجہ بدعنوان سیاستدانوں افسر شاہی قانون نافذ کرنے والے اداروں عدلیہ اور خود عوام سبھی نے مل کر اسے مسائلستان بنا رکھا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ضمن میں فوری اقدامات پر ترجیحی بنیادوں پر توجہ دی جائے یوں تو پاکستان کے سماجی مسائل کی فہرست بہت طویل ہے غربت کو اگر پاکستان کا اولین مسئلہ قراردیا جائے تو غلط نہ ہو گا اگرچہ کہا جاتا ہے کہ تیس فیصد سے زائد پاکستانی خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں مگر حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ شرح پچاس فیصد ہو گی ملک میں صرف غربت ہی ہوتی اس کی دیگر وجوہات نہ ہوتیں صرف غربت اور معاشی حالات ہی ہوتے تو بھی صبر و تحمل سے اس کو سہا جا سکتا تھا لیکن یہاں عدم مساوات ، قدرتی آفات ، بے روزگاری ، جاگیر دارانہ نظام نامناسب حکومتی عوامل اور حکمرانوں کی نااہلی و ناانصافی پر مبنی رویہ اور پالیسیاں تباہ حال صنعتیں نا انصافی عدالتوں سے انصاف کا نہ ملنا ملکی نظام کا کمزور کی بجائے طاقتور کا ساتھی ہونا صحت و تعلیم کا نا قص نظام ، غیر ملکی قرضے افراط زر اور بدعنوانی سمیت طرح طرح کے عوامل شہریوں کی زندگیوں میں زہر گھول رہی ہیں مسائل تو بہت ہیں ان کا تذکرہ بھی ہوتا ہے مگر صرف تذکرہ کافی نہیں حکمران اعلانات تو کر رہے ہوتے ہیں اقدامات کی نوبت کم ہی آتی ہے ۔ملک اور اس کے عوام کو ان حالات سے نکلنا ہے تو حکومت کو ایسی پالیسیاں اپنانا پڑیں گی جہاں ناانصافی کی جگہ مساوات اور بدعنوانی کی جگہ شفافیت کو جگہ دی جائے اور ایسی معاشی پالیسیاں وضع ہونی چاہئیں جس میں سرمایہ کاری آسان اور غیر ملکی سرمایہ کاری ممکن ہو سکے راہ میں رکاوٹیں حکمرانوںکی پالیسیوں سے لے کر سرخ فیتے تک ایندھن کی قلت و مہنگائی جیسے عوامل جہاں رکاوٹ ہیں وہاں سستی افرادی قوت کی دستیابی ایک نعمت سے کم نہیں جس سے سرمایہ کار فائدہ اٹھا سکتے ہیں محصولات کی مد میں کمی ہونی چاہئے دوسری جانب معاشرے کی ترقی کیلئے تعلیم پر خاص توجہ کی ضرورت ناگزیر ہے تاکہ ناخواندگی میں کمی لا کر تعلیم یافتہ اور ہنرمند معاشرے یک تعمیر کی جاسکے قانون اور انصاف کو سب کیلئے یکساں اور آسانی سے موجودگی کو یقینی بنانے کی بھی ضرورت ہے ۔ موجودہ تعلیمی اداروں کی بہتری غیر مساوی نظام تعلیم کا خاتمہ اور یکساں نظام تعلیم متعارف کرانے کی بھی ضرورت ہے بدعنوانی کے خاتمے پر خاص طور پر توجہ اور سخت سے سخت اقدامات کی بھی ضرورت ہے حقیقی احتساب کا نعرہ کافی نہیں ایسا احتساب ہونا چاہئے جس پر نہ صرف عوام کو یقین آجائے بلکہ بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جائے کہ پاکستان میں اب بدعنوان عناصر کیلئے کوئی جگہ نہیں اس سب کچھ کیلئے جس عزم کی ضرورت ہے اس کی کمی اور بالادست طبقات کی بے حسی کی جو حالت ہے اس کی موجودگی میں سوائے مایوسی اور گھپ اندھیرے کے کچھ نظر نہیں آتا لیکن مایوسی گناہ ہے اور امید و عزم روشنی اب یہ روشنی کب پھیلے گی کیسے پھیلے گی کون پھیلائے گا اس کیلئے دیانتدارقیادت کا انتظار ہے اور بس۔

مزید پڑھیں:  ارون دھتی رائے بہانہ شیخ شوکت نشانہ؟