بجٹ اور معاشی حقائق

وطن عزیزمیں معروضیت کا فقدان اور ہر معاملے کو اپنی عینک سے دیکھنے کی روایت کے باعث حقیقت پسندانہ اور غیرجانبدارانہ رائے سے آگاہی مشکل ہوگئی ہے اس سے ملکی رائے عامہ سے لیکر صحافت تک بری طرح متاثر نظرآتی ہے جس کے باعث اب رائے دہندگان اور ماہرین کی رائے زیادہ معتبر نہیں رہی بجٹ پر اگر حکمران جماعت کی طرف سے تبصرہ آئے تو ان کے تجزیے کے مطابق ان حالات میں اس سے بہتر بجٹ ممکن نہیں ہوتا جبکہ حزب اختلاف کی نظرمیں صرف بجٹ ہی عوام دشمن نہیںبلکہ حکومت بھی عوام دشمنی میں کسی سے پیچھے نہیںاس طرح کے ماحول میں عام آدمی کے لئے کوئی رائے قائم کرنا مشکل ہونا فطری امر ہے علاوہ ازیں بجٹ ایک ایسا موضوع ہے جوپیچیدہ اعدادو شمار کاوہ گھورکھ دھندہ ہے جسے بنانے والوں ہی کواس کی سمجھ آئے تواسے کافی گردانا جاناچاہئے۔ اس گرداب میں درست سمت اور حقیقت پسندانہ رائے اور تجزیے کے لئے غیر ملکی اداروں ہی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے ان حالات میں آئندہ مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے متوازن رائے اور تجزیہ کسی غیرجانبدار ادارے اور افراد ہی کی طرف سے قابل قبول سمجھا جانا فطری امر ہے ضروری نہیں کہ وہ رائے سو فیصد درست ہو لیکن قرین قیاس اور حقیقت پسندانہ قرار دینے کی کافی گنجائش کا حامل بہرحال سمجھا جانا چاہئے ان عوامل کے ہوتے ہوئے کسی غیر جانبداررپورٹ کی طرف متوجہ ہونا فطری امر ہوگا معروف عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز کے حوالہ سے اپنی ایک رپورٹ میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی نصف سے زائد آمدنی سود کی ادائیگی پر خرچ ہوگی۔ موڈیزکے مطابق پاکستان کا حالیہ بجٹ آئی ایم ایف قرض پروگرام کے لئے مذاکرات میں مددگار ہوگا، 3.6 فیصد شرح نمو ہدف رکھ کر آئی ایم ایف کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ موڈیز کا کہنا تھا کہ مالی استحکام کے لئے ٹیکسوں میں اضافے اور شرح نمو پر انحصار کیا، مہنگائی کی وجہ سے سماجی تنائو دوبارہ پیدا ہوسکتا ہے جبکہ مضبوط الیکٹورل مینڈیٹ نہ ہونے سے اصلاحات پر عمل مشکل ہو سکتا ہے۔ موڈیز نے ملکی آمدنی میں اضافہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریونیو میں 40فیصد اضافہ ٹیکسوں میں اضافہ کی وجہ سے ہے۔عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے یہ خدشات خلاف حقیقت نہیں اس طرح کے خدشات کا اظہار غالب ہے جو ظاہر ہے اعداد و شمار اور بجٹ کے تجزیے کی روشنی میں اخذ کئے گئے ہیں ۔ماہرین سے لے کر عوامی سطح پر اس مد میں اجماع کی کیفیت ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے محصولات کی مد میں جو اضافے طے کئے گئے ہیں ان کا اثر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پرنمایاں اضافے کی صورت میں سامنے آنا تقریباً یقینی ہے اگرچہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ضرور کیاگیا ہے لیکن دوسری جانب لیوی کی شرح بڑھائی گئی ہے جس کے نفاذ سے سارا حساب کتاب برابر ہو گا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تو اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے لیوی کے نفاذ کابوجھ مستقل ہوگا جس کے اثرات سے ہر شعبہ متاثر ہو سکتا ہے نیز روزمرہ ضرورت کی اشیاء پر جنرل سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ بھی مستقل بنیادوں پر ہر چھوٹے بڑے پر بلا تخصیص بوجھ پڑے گا جس کے منفی اثرات کے دائرے سے کوئی بھی باہر نہیں ہو گا ان تمام عوامل سے آنے والے دنوں میں مہنگائی کے واضح اشارے مل رہے ہیں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کو بھی دگنا کر دیاگیا ہے مگر متعدد شعبے جن میں پرچون فروش بطور خاص قابل ذکر ہیں ٹیکس کے دائرے سے باہر ہیں حالانکہ اس شعبے کے مالیاتی حجم میں گزشتہ برسوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ایسے میں وزیر خزانہ کا مہنگائی کو واحد عدد میں لانے کا اعلان محض طفل تسلی کے سوا کچھ نہیں حقیقت یہ ہے کہ قومی معیشت پر اس وقت سب سے بڑا بوجھ قرضوں کے واجبات کا ہے نئے مالی سال کے تقریباً نصب کے برابر رقم صرف سود کی ادائیگی پر صرف ہوگی اس صورتحال میں سماجی اور ا نسانی ترقی کے شعبے ہی نظر انداز اورمتاثر ہوں گے اس کے باوجود حکومت بجٹ اور کفایت شعاری پر تیار نہیں اس کا نہ صرف ا علان نہیں کیا گیا ہے بلکہ بجٹ میں حکومتی اخراجات اور دفاعی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے ان حالات میں سوائے مزید قرض لینے کے کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا اور حکومت کے اقدامات بھی عوام کی بجائے آئی ایم ایف کی سہولت کے مطابق ہیں یہ وہ صورتحال ہے جس میں ملک میں مالیاتی استحکام کا مزید مشکوک ہونا اور سیاسی عدم استحکام کا جلتی پر تیل ثابت ہونے کا عمل بطور خاص تشویشناک ہے اس صورتحال سے نکلنے کے لئے حکومت اور سیاسی قائدین تیار ہی نہیں ہوئے جس کا نزلہ عوام ہی پر گرتا ہے ۔

مزید پڑھیں:  حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے