معاشرے میں سفاکیت کے بڑھتے واقعات

بڈھ بیر میں گزشتہ روز خون کی جو ہولی کھیلی گئی اس کی تفصیلات روح فرسا ہیں لیکن دوسری جانب اس سے ہمارے معاشرے ، عمائدین اور علمائے کرام سبھی کے لاتعلقی پر مبنی کردار کی بھی عکاسی ہوتی ہے جس کے باعث معاشرے میں اب اس طرح کے انتہا پسندانہ اور مذموم واقعات کا سامنے آنا معمول بن گیا ہے پولیس کا کردار اس طرح کے معاملات میں بہرحال وقوعہ کے ہونے کے بعد کا ہے اس سے قبل ملک کے عدالتی نظام انصاف کی فراہمی اور اس پر اعتماد کا عمل قابل توجہ ہے عدالتوں میں انصاف کے عمل میں تاخیر بلکہ اس نظام عدل پر لوگوں کااعتمادکا باقی نہ رہنا اور مایوسی اس طرح کی مشکل صورتحال کا باعث قرار دینا مبالغہ آرائی نہیں جہاں معاشرے میں قانون کی عملداری اور انصاف کا عمل دونوں غیر موثر ہوں معاشرے میں بھی ایسے کردار باقی نہ ہوں جس طرح ماضی میں جرگہ ہوا کرتے تھے اب جب یہ معدوم ہو گئے تو پھر قانون کو ہاتھ میں لینے اور خون کی ہولی کھیلنے کی راہ خود بخود ہموار ہوتی ہے بڈھ بیر تو غیر قانونی اسلحہ اور سماج دشمن عناصر کا گڑھ علاقہ سمجھا جاتا ہے جہاں آئے روزاس طرح کے واقعات سامنے آتے ہیں گزشتہ روز کے واقعے میں پختون روایات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا معلوم نہیں اس کے ذمہ دار کردارکس ذہنیت کے تھے ان کی سفاکیت دیکھ کر تو شبہ کیا جاسکتا ہے کہ منشیات کی لعنت کا شکار یاپھر نفسیاتی مریض ضرور ہوں گے واقعہ کے بعد پولیس متحرک ضرور نظر آتی ہے ابھی تک کامیابی نہ ملنا بھی اپنی جگہ لیکن جب تک اس اندوہناک واقعے کے کردار پکڑے نہیں جاتے قانون کی عملداری کے ذمہ دار جملہ اداروں کو اس واقعے کے ملزمان کی گرفتاری او رکٹہرے میں لانے کی ذمہ داری میں تساہل کا مظاہرہ نہیں کرناچاہئے اورماضی کے کئی اس طرح کے مقدمات کی طرح اسے بھی فراموش کرنے کی غلطی نہ دہرائی جائے کم ازکم اس کا موقع ضرور ہے اور مظلوم خاندان کو ا نصاف وتحفظ کی فراہمی بھی اسی طرح سے ہی ممکن ہوسکے گا۔

مزید پڑھیں:  میں تیرے شہر گرفتار سے باہر آیا