اگر یوں ہوجائے تو ۔۔۔ ؟

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق اپیل کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ کوئی ڈکٹیٹر آئے تو سب وزیر اور اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں، جمہوریت آتی ہے تو یہ سب لوگ چھریاں نکال لیتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ عدالتی سماعت کے دوران دیا گیا ایک ریمارکس ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ ہمارے عدالتی نظام کی مکمل دورخی تصویر اور تاریخ ہے۔ 1956 کے آئین پر شب خون مارے جانے کے بعد سے آج تک مختلف شعبہ ہائے زندگی اور اداروں میں ہیرو گیری کا شوق صرف اس وقت چراتا آیا اولا جب ذاتی مفادات متاثر ہورہے ہوں یا ریٹائرمنٹ قریب ہو۔ مختلف اوقات میں سیاسی عمل کا حصہ بننے والوں کو بھی دستور جمہوریت اور عوامی حقوق صرف اس وقت ستاتے ہیں جب انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہ کیا جائے یا نظرانداز کردیئے جانے کا موسم آجائے ۔ پاکستانی نظام ہائے حکومت کے مختلف شعبوں میں جس دستوری و جمہوری تطہیر کی ضرورت رہی اور ہے اس سے صرف نظر کیا جانا ایک جرم ہی ہے۔ مثلا چیف جسٹس آف پاکستان کے مندرجہ بالا ریمارکس کو چراغ بناکر ملکی و عدالتی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لئے جانے چاہئیں۔ اس ریمارکس کو سامنے رکھ کر عشروں سے ایک بڑے طبقے کے اس موقف کا تجزیہ کیجئے کہ اعلی عدالتوں میں ججز کی تقرری کے لئے بڑے وکلا چیمبرز، ایجنسیوں اور سیاسی پسندوناپسند کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے اس رائے پر یہاں تک متفق طبقات میں ایک طبقہ ججز تقرری کو سی ایس ایس کے امتحانات کی طرح کے ایک اعلی سطحی کمیشن کے زیراہتمام امتحان سے ہائی کورٹس کے لئے جج کی تقرری عمل میں لانے پر زور دیتا ہے نیز یہ کہ ہائیکورٹس سے سنیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں تقرری پر زور دیتا ہے۔ دوسرے طبقہ کا موقف ہے کہ چاروں صوبائی اسمبلیوں قومی اسمبلی اور سینٹ کی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے اس میں وفاقی اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ارکان کے طور پر شامل ہوں۔ یہ کمیٹی ہائیکورٹ کے جج کی تقرری کے لئے سفارشات کا جائزہ لے کر تقرری کی منظوری دے۔ اس رائے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس طرح عدلیہ میں سیاسی بنیادوں پر تقرریوں کا عمل بڑھ جائے گا کیونکہ جس کی بھی حکومت ہوگی وہ اپنے ہم خیال جج بھرتی کرائے گا جس سے اگلے ادوار میں تقرریاں کرانے والوں کے سیاسی مخالفین کی شامت آئی رہے گی۔ یہ نکتہ نظر رکھنے والے ماضی و حال کی درجنوں مثالیں اپنے موقف کے حق میں پیش کرتے ہیں۔ اس امر پر دو آرانہیں کہ اعلی عدلیہ میں ججز تقرری کا معاملہ انتہائی حساس ہے۔ دستور و قانون کی زندگی و موت یا پھر بالادستی کا تاریخ ساز مرحلہ ہر دو بہرطور پیش نظر رکھنا ہوں گے۔ یہاں ضمنا رواں صدی کی پہلی دہائی میں پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ہونے والی میثاق جمہوریت کی ایک شق کا ذکر ضروری ہے اس شق کے مطابق پی سی او ججز کی دوبارہ تقرریاں نہیں ہوں گی نہ پی سی او کے حامی قانون دانوں کو عدالتی نظام کا حصہ بنایا جائے گا۔ ملک کی دو بڑی جماعتوں میں جب میثاق جمہوریت ہورہا تھا تب بھی بعض حلقے یہ کہتے دکھائی دیئے کہ میثاق جمہوریت میں لکھا جائے کہ ملک میں آمریت مسلط ہونے پر سیاسی جماعتوں کو توڑ کر آمر کی چھتری کے نیچے پناہ اور منصب لینے والوں کو مستقبل میں نہ تو سیاسی جماعتیں قبول کریں نہ انہیں نظام مملکت کے مختلف شعبوں میں کوئی عہدہ دیا جائے۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ تجویز پذیرائی حاصل نہ کرپائی بلکہ مسلم لیگ (ن) پرویز مشرف دور میں پارٹی چھوڑ جانے والوں کو واپس نہ لینے کے اعلان پر قائم نہ رہ سکی اور 2008 کے انتخابات میں اس نے 280کے قریب ایسے افراد کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کا امیدوار بنایا جو مشرف کے ہاتھوں جمہوریت کے قتل کے بعد فوجی حکومت کی گاڑی میں دو مرحلوں میں شامل ہوئے پہلے بلدیاتی نظام اور ثانیا 2002 کے قومی انتخابات سے قبل۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جب تک سیاسی جماعتیں آمریت کے خیر مقدم اور اسے دوام دینے کے گناہ میں شرکت سے خود کو باز نہیں رکھتیں زندگی کے کسی بھی شعبہ اور نظام چلانے والے اداروں میں دستور و قانون کو حرف آخر سمجھنے والوں کے لئے گنجائش پیدا نہیں ہوگی۔ ہوگا یہی کہ ڈکٹیٹر کے دور میں وزیر اور اٹارنی جنرل بن جانے والے لولے لنگڑے جمہوری نظام پر چھریاں نکال لیا کریں گے۔ یہاں ہم عدالتی نظام کے ایک عمل کو بطور مثال پیش کرنا ازبس ضروری سمجھتے ہیں۔ اس ملک کے سنجیدہ فہم لوگوں کے بڑے طبقے کی رائے یہ ہے کہ اگر ظفر علی شاہ کیس میں فوجی آمر کو حکومت کے لئے تین برس دینے کے ساتھ آئین میں شخصی ترمیم کا حق عطا کرنے والے سپریم کورٹ کے بنچ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر کے کارروائی ہوتی تو اگلے مرحلوں میں بہت ساری قباحتوں اور ا یسے فیصلوں سے بچا جاسکتا تھا جن سے دستور کی بنیادی اساس متاثر ہوئی۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے دور میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں روا رکھے گئے گھٹالے کے خلاف دائر اپیل پر سینیٹ کے پریذائیڈنگ افسر کی جعلسازی کو پارلیمانی معاملہ قرار دینے والے بنچ نے (اس کی سربراہی جناب جسٹس اطہر من اللہ کررہے تھے) بعدازاں بہت سارے ایسے مقدمات میں فیصلے سنائے جو گزشتہ فیصلے سے مختلف تھے۔ یہ دو مثالیں عرض کرتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ دلانا غیرضروری ہے کہ جناب جسٹس اطہر من اللہ پرویز مشرف کی فوجی حکومت میں صوبائی وزیر بھی رہے ہیں۔ بالائی سطور میں پیش کی گئی دو مثالیں درحقیقت ہمارے سماج کی اجتماعی نہ سہی ساٹھ فیصد آبادی کی مجموعی سوچ اور ترجیحات کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسی سبب یہ عرض کرنا لازم ہے کہ نہ صرف اعلی عدلیہ میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار پر نظرثانی ہونی چاہیے بلکہ میرٹ سے انحراف کو جرم سمجھا جانا چاہیے ثانیا یہ کہ سیاسی جماعتیں آمروں کی گودمیں جا بیٹھنے والوں پر اپنے دروازے بند کردیں۔ ہر چار پانچ سال بعد جماعتیں تبدیل کرنے کی بیماری میں مبتلا افراد کو کوئی بھی جماعت پانچ سال تک پارٹی عہدہ دے نہ انتخابی امیدوار بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ قانونی و اخلاقی طور پر طے کیا جائے فوجی آمر کا ساتھ دے کر منعفت بخش عہدے حاصل کرنے والوں کو جمہوری ادوار میں عدالتی نظام کا حصہ نہیں بنایا جائے گا ۔ ہمارے خیال میں اگر نظام ہائے حکومت چلانے والے نظام کی تطہیر اور جمہوریت کی بالادستی چاہتے ہیں تو انہیں ان معروضات پر توجہ دینی چاہیے۔

مزید پڑھیں:  ایک اور سکینڈل میں پشاور بدنام