موسمی تبدیلی کے شاخسانے

خیبرپختونخوا کے میدانی اضلاع بشمول پشاورمیں مسلسل گرمی نے معمولات زندگی کو منجمد کرکے رکھ دیا ہے رواں سال مئی اورجون گزشتہ سالوں کے مقابلے میں گرم ترین مہینے رہے ہیں عام طور پر اتنی گرمی جولائی اور اگست میں پڑتی تھی لیکن اس بار صورتحال بالکل الٹ ہے گرمی نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈتوڑ دئیے ہیں ۔ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق بارشوں کے ایک سلسلے کی توقع ہے جس کے بعد موسم کی حدت میں کمی آئے گی البتہ یہ وقتی نہیں بلکہ مستقل اورسنگین نوعیت کامسئلہ ضرور بن گیا ہے شدید گرمی میں بدترین لوڈ شیڈنگ سے خیبر پختونخوا کے عوام کوجن حالات کا سامناہے وہ ناقابل بیان ہے ان حالات میں حکومتی تیاریوں اور اقدامات کی کمی کا احساس شدت سے ہو رہا ہے اعلانات اور دعوئوں کے باوجودگرمی سے متاثر ہونے والے شہریوں کی طبی امداد اور شدید گرمی سے متاثر ہونے والوں کے لئے بچائو کے اقدامات کی کمی پریشان کن مسئلہ ہے صورتحال کاتقاضا ہے کہ حکومت ایسے مختلف اقدامات پر مزید توجہ دے ۔ جس میں ہسپتالوں، موبائل ہیلتھ یونٹس اور کم آمدنی والے علاقوں میں اور بھیڑ والے راستوں پر کولنگ سٹیشنوں میں سہولیات میں اضافہ شامل ہو۔ مزید یہ کہ، کمزور رہائشیوں کو ان کی دہلیز پر ابتدائی طبی امداد کی خدمات حاصل ہونی چاہئیں۔ پارکوں اور آبی ذخائر کو اپ گریڈ کرنے اور پھیلانے کے ساتھ ساتھ، اسفالٹ کو کم کرنے اور وسیع خطوں کو جنگلات میں تبدیل کرکے درختوں کی قدرتی چھتریوں میں اضافہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ سے نکلنے کا واحد راستہ پودے ہیں – درخت، قدرتی ایئر کنڈیشنر، درجہ حرارت کو کم از کم 4 ڈگری سینٹی گریڈ تک کم کرتے ہیں، سایہ فراہم کرتے ہیں، فضا میں کاربن جذب کرتے ہیں، آکسیجن کا اخراج کرتے ہیں اور مون سون کے انداز کو معمول پر لاتے ہیں۔ پاکستان کو قابل تجدید توانائی کی طرف منتقلی، گرین ہاس گیس کے دھوئیں کو محدود کرنا اور گاڑیوں کے سیلاب کو روکنے کے لیے ایک مضبوط ٹرانسپورٹ سسٹم تیار کرنا چاہیے۔ تیزی سے گرم ہوتی ہوئی دنیا میں انسانی جانوں کو بچانے میں تاخیر نہیں کی جا سکتی۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے نئے منصوبے اور آئی ایم ایف کا دباؤ