اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

نئے مالی سال کے میزانیہ پر ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافہ اور مہنگائی کے منبع کا کردار ادا کرنے والی پٹرولیم منصوعات کی فی لیٹر کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کے ساتھ عملدرآمد کا آغاز ہوچکا یہ بجٹ میں عام افراد کے لئے بوجھ ہی بوجھ اور مزید بوجھ اور اس میںسلسلہ وار ا ضافہ ہی کے سوا کچھ نہیں قدرتی اور موسمی حالات اور وباء اچانک اور قدرتی چیزیں ہیں لیکن بہرحال ان کے بھی اثر انداز ہونے کا امکان رہتا ہے خاص طور پر شدید بارشوں اور سیلاب کے خطرات کا کافی سے زیادہ امکانات ہیںہر آنے والے مالی سال کے آغاز ہی میں بلائیں انوری کے گھر کا رخ کرنے کی اتنی عادی ہو چکی ہیں کہ ان کی یلغار سے سارا سال انوری کے گھرمیں ماتم رہتی ہے امسال بھی نئے مالی سال کا آغاز ہی ان مسائل و مشکلات سے ہوا ہے کہ نئے مالی سال میں تمام سرکاری ملازمین پر نئی شرح کے ساتھ ٹیکس کا نفاذ ہوا ادویات اور اشیاء خوردنی سمیت روزمرہ استعمال کی تمام چیزوں کی قیمتیں اٹھارہ فیصد جنرل سیلز ٹیکس کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں معمول کے مطابق تو ٹیکس کا اضافہ ہی ہے کچھ منافع خور عناصر اور دکاندار بھی اس میں اپنا حصہ شامل کرکے عوام سے وصول کریں گے بجلی اور گیس کی قیمتوں پر بھی نیا ٹیکس لگ گیا ۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بھی آج بڑھ گئی ہیں۔ سٹیشنری پر نئے ٹیکس کی وجہ سے کتابیں اور کاپیاں بھی مہنگی ہوجائیں گی، جائیداد اور کاروبار بھی صوبائی اور وفاقی ٹیکس کے نیٹ میں آگئے نجی سکولوں سے بھی نئے مالی سال کے دوران ٹیکس کی وصولی کی جائے گی۔ ہسپتالوں کے طبی آلات پر بھی نیا ٹیکس ہوگا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ رواں ماہ کے دوران تین بار بجلی کی قیمت بڑھائی گئی۔ حکومت نے نہ صرف بجٹ کے نام پر شکنجہ مزیدکس دیا ہے بلکہ ایف بی آر کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہوئے ماضی کے کالے قوانین کی یاد تازہ کردی ہے۔ صوبوں سے اتفاق رائے حاصل کئے بغیر جائیدادوں کی خریدوفروخت پر عائد کی جانے والی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سے آنے والے دنوں میں جو مسائل پیدا ہوں گے اس کا غالباً ”بجٹ سازوں” کو اندزہ نہیں۔ان عوام کے سبب آئندہ مالی سال کا ٹیکس بھاری بجٹ عام پاکستانیوں کی زندگی کو مزید مشکل بنا دے گا اور حکمرانوں اور عوام کے درمیان اعتماد کی خلیج کو مزید گہرا کر دے گا کیونکہ اس میں اضافی ٹیکسوں کی ایک پوری فہرست شامل کی گئی ہے جس سے براہ راست کم قیمتوں پر اثر پڑے گا۔ وزیر اعظم سے لے کر نیچے تک ہر عہدیدار نے اس بجٹ کو اگلے چند سالوں میں ایک عظیم معاشی تبدیلی کی امیدبنا کر پیش کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس کے اہداف کی دیانتداری سے حصول اور اس میں موجود اقدامات پر پہلے ہی سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔حکومت نے ایک مرتبہ ہی ٹیکس بڑھانے اور عوام پر بوجھ ڈالنے پر بس نہیں کیا بلکہ فنانس بل میں کی گئی آخری لمحات کی تبدیلیاں، جس میں پارلیمنٹ سے منظوری سے عین قبل اصل بل میں موجود 1.5 ٹریلین روپے کے علاوہ200ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات نافذ کیے جو عوام پر مزید در مزید بوجھ ڈالنے کا باعث امر ہے بہت سے معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل نہیں کر پائے گی۔ بجٹ نے موجودہ محدود ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دیے بغیر براہ راست ٹیکس وصولی میں 48 فیصد اضافہ کیا ہے۔مزید برآں، یہ ٹیکس نیٹ میں نہ آنے والوں کو ‘نان فائلرز’ کے نام نہاد زمرے میں ڈال کر محفوظ رکھ کر چھوڑ دیتا ہے میں ڈال کر تاکہ ٹیکس چوروں بشمول تاجروں، رئیلٹرز، پراپرٹی ڈویلپرز وغیرہ کو باہر رکھا جا سکے۔ موجودہ معاشی سست روی اور اکثریت کی قوت خرید میں کمی کے پیش نظر اگلے سال بالواسطہ ٹیکسوں میں 35 فیصد اضافے کا تخمینہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔وزیر خزانہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ موجودہ بجٹ کا مقصد بجٹ خسارے کو کم کرنا ہے اور اگلے تین سالوں میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب موجودہ 9.5 فیصد سے بڑھا کر 13فیصد کرنا ہے۔ بجٹ کی تفصیلات اور حکومتی دعوئوں اور بیانیہ میں تضاد ہے کیونکہ متعارف کرائے گئے اقدامات وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے وعدے کے برعکس ہیں۔ دعوئوں اور وعدوں کے برعکس اتحادی حکومت جو بجٹ لائی اس میں عوام کیلئے کچھ بھی نہیں ماسوائے یوٹیلٹی بلوں میں ظالمانہ اضافے اور بدترین مہنگائی کی نئی لہرکے ہمارے پالیسی سازوں کے بارے میں ایک عمومی تاثر ہمیشہ قدم قدم پر درست ثابت ہوتا ہے کہ انہیں ہم وطنوں سے زیادہ عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ اندریں حالات اس امر کا اظہار بے جا نہیں کہ عوام کو درپیش مسائل مزید گھمبیر ہوں گے۔ فقط یہی نہیںبلکہ اس کے باعث حکومت و ریاست اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی خلیج بھی مزید وسیع ہوگی۔

مزید پڑھیں:  تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے