ٹیکس گردی کا شکارتنخواہ دار طبقہ

ٹیکس دینا ہر شہری کا فرض ہے ۔ ملک کے مالی معاملات کو اس کے بغیر پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک اپنے شہریوں سے زیادہ ٹیکس لیتے ہیں اور بدلے میں انہیں تمام تر سہولیات فراہم کرتے ہیں ۔ پاکستان میں ٹیکس دینے کا اور لینے کا کلچر کچھ زیادہ نہیں ہے ۔ یہاں صر ف ایک ہی طبقہ ہے جس سے ہر برس نچوڑ نچوڑ کر ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور وہ طبقہ تنخواہ دار وں کا ہے ۔ یہ ٹیکس جو براہ راست لیا جاتا ہے اتنا زیادہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں دنیا میں سب سے کم اجرت دی جاتی ہے وہاں ان سے سب سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ۔ اور وہ بھی اس طبقے سے جس نے اپنے حصہ کا بہت زیادہ ٹیکس تنخواہ وصول کرنے سے پہلے ہی ادا کردیاہوتا ہے اسی سے پھر ہر ہر قدم اور کام پر ٹیکس دوبارہ وصول کیا جاتا ہے ۔ جس سے اس طبقہ کا عملی طور پراس تنخواہ سے ہونے والی آمدن پر زندگی گزارنا ناممکن ہوگیا ہے ۔ اس ملک میں سرکاری مزدور کی کم از کم اجرت پینتس ہزار روپے ہے ۔ جس سے اس ہوش رُبا مہنگائی کے دور میں ایک کنبے کے لیے آٹا ، گھی ، چاول ، چائے اور دودھ خریدنا بھی ممکن نہیں ہے ۔ اس پر یہ غریب ان ساری چیزوں پر اٹھارہ فیصد ٹیکس بھی دیتا ہے ۔ اس ملک میں بنکوں کو نوازنے کے لیے شرح سود کو اتنا زیادہ رکھا گیا ہے کہ اس کی مثال دنیا بھر میں نہیں ملتی ۔ یعنی اس ملک میں جہاں سب کچھ تباہی کے دھانے پرہے وہاں بنکوں کی سالانہ آمدنی اربوں روپوں میں ہے چند ایک بنک تو کھربوں میں کماتے ہیں ۔ دنیا بھر میں شہریوں سے صرف ایک مرتبہ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے ۔ لیکن پاکستان میں تنخواہ پر ٹیکس دو ، بجلی کے بل میں سات اقسام کے ٹیکس دو یہاں تک جب ٹیکسوں کے نام ختم ہوگئے تو اس میں لکھا ایک ٹیکس ایسا بھی جس کو مزید ٹیکس کا نام دیا گیا ہے ، گیس کے بل میں تین مختلف ٹیکس ، گیس کا میٹر پہلے مکمل قیمت دے کر خریدو پھر ہر مہینے اس کا کرایہ بھی ادا کرو، پانی کے بل میں ٹیکس دو ،موبائل میں کارڈ لوڈ کرو تو اس پر تیس فیصد ٹیکس دو ، ٹیلی فون کا بل آئے تو اس میں ٹیکس دو، دودھ سے لیکر دوائی تک جو بھی خریدو اس پر اٹھارہ فیصد ٹیکس ادا کرو، کسی ریسٹورنٹ میں کھانے جاؤ تو وہاں پر مختلف ٹیکس ادا کرو، پیٹرول یا ڈیزل استعمال کرو تو اس پر سو فیصد سے زیادہ ٹیکس ادا کرو، گاڑی خریدو تو اس پر ایک سو پچاس فیصد ٹیکس ادا کرو، زمین یا مکان خریدو تو اس پر بیس سے پچیس فیصد ٹیکس ادا کرو، سٹرکو ں پر سفر کرو تو اس کے بدلے ہوش رُبا ٹیکس ادا کرو ، ہوائی جہاز میں سفر کرو تو اس پر سو فیصد سے زیادہ ٹیکس ادا کرو ،یہاں تک کہ اگر باپ فوت ہوجائے تو اس کی جائیداد بچوں میں تقیسم ہوگی تو اس پر بھی ٹیکس دینا لازم ہے ۔یعنی ایک سرکاری ملازم جو تنخواہ لیتا ہے اس میں سے سارا ٹیکس تنخواہ دینے سے پہلے ہی حکومت کاٹ لیتی ہے اور باقی تنخواہ کا نصف سے زیادہ بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعہ ہتھیا لیتی ہے ۔ لیکن حکومت اس پر ہی بس نہیں کرتی بلکہ ہر برس کے بجٹ میں ٹیکس بڑھا دیتی ہے ۔ ٹیکس سلیب بڑھا دیتی ہے ۔ جس سے یہ طبقہ فاقوں پر مجبور ہوگیا ہے۔ دنیا میں ٹیکس لے کر حکومتیں اس کے بدلے اپنے شہریوں کو سہولیات دیتی ہیں ۔ لیکن یہاں کسی ایک سہولت کا نام ڈھونڈنے سے نہیں ملتا ۔ اس ملک میں ٹیکس اس لیے جمع کیا جاتا ہے کہ اس سے اشرافیہ کے شاہانہ خرچے پورے کیے جاسکیں اور ان کی عیاشیوں کو برقرار رکھا جاسکے ۔ غریبوں سے ٹیکس لیکر اشرافیہ کو مراعات فراہم کرنا کہاں کا انصاف ہے ۔ اس ملک کا ٹیکس دینے والا یہ سوال بھی نہیں کرسکتا کہ اس کے ٹیکس سے خریدی گئیں لاکھوں قیمتی گاڑیاں اور ان میں استعمال ہونے والا اربوں کا ایندھن اشرافیہ کیوں استعمال کررہی ہے ۔ اس اشرافیہ نے پاکستان کو دیا ہی کیا ہے ۔ ان کے گھر ، جائیدایں ، بچے اور اثاثہ ملک سے باہر ہیں ۔ یہ سب یہاں ملک کو لوٹنے کے لیے رہتے ہیں ۔ اور وہ شہری جن کا جینا مرنا یہاں پر ہے جن کی وجہ سے یہ ملک چل رہا ہے ان کی کھال ان کے لیے کھینچی جاتی ہے ۔ اگر ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں ہیں تو اخراجات کیوں کم نہیں کیے جاتے ۔ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات ختم کیوں نہیں کی جاتیں ، ان کو دی جانے والی سبسڈیز ختم کیوں نہیں کی جاتیں ، خسارے کا سبب بننے والے ادارے اور کام ختم کرنے میں کیا مشکلات ہیں ۔ ملک میں تمام تنخواہ داروں کو یکساں تنخواہ کیوں نہیں دی جاتی ، مخصوص طبقات کو ہزاروں گنا زیادہ تنخواہ اور مراعات کیوں دی جارہی ہیں ۔ سیاسی رشوت کے طور پر لوگوں اور میڈیا کو رشوت کے طورپر کھربوں روپے کیوں دئیے جاتے ہیں ۔ سمگلنگ کیوں نہیں روکی جاتی ، شرح سود کیوں کم نہیں کی جاتی ، مقامی طور پر صنتعیں اور کارخانے لگانے کی حوصلہ افزائی کیوں نہیں کی جاتی ، مہنگی بجلی کیوں بنائی جاتی ہے ، اپنے فرنٹ مینوں کو بجلی پیدا نہ کرنے کے عوض کسپیسٹی چارجز کے نام پر سالانہ ہزاروں ارب روپے سے زیادہ کیوں ادا کیے جاتے ہیں، حکمرانوں کے چینی ملوں کو اربوں روپے کیوں دئیے جاتے ہیں ، ویل فیئر اور چیریٹی کے نام پر لوگوں اور اداروں کو کھربوں روپے کے ٹیکس کیوں معاف کیے جاتے ہیں ۔ یہ سب اس لیے کیا جاتا ہے کہ اشرافیہ کو خوش رکھا جائے ۔ یہ نظام زیادہ دیر چل نہیں پائے گا اس لیے کہ انسان بغیر مذہب ، بغیر شناخت رہ سکتا ہے مگر وہ بھوکا نہیں رہ سکتا ۔ جب اس کو دیوار کے ساتھ لگایاجائے اوراس کے جسم سے کپڑے تک اُتار لیے جائیں ،اور اس کارزق تک چھین لیا جائے تو وہ ردعمل میں سب کچھ برباد کرنے پر تل جاتا ہے ۔ اس ملک میں ایسا ہونے کا انتظار نہ کیا جائے ۔ تاجروں ، سرمایہ داروں ، بڑ ے زمین داروں اور صاحب حیثیتوں سے جائز ٹیکس وصول کیا جائے ۔ یہاں کسی کو مقدس گائے نہ بنایا جائے سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے ۔ کسی کو کوئی چھوٹ یا رعایت نہ دی جائے ۔ کام کے عوض دی جانے والی رقم سے جس بے دردی کے ساتھ حکومت براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس کاٹ رہی ہے اس کو بند کیا جائے اور ٹیکس کی رقم سے پاکستان کی تعمیر کی جائے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ نظام چلتا رہے گا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو پھر دنیا میں ایک اصطلاح ہے جسے ماپ جسٹس کہا جاتا ہے ۔ہم اس کا شکار ہوں گے ۔ جو تباہی کا راستہ ہے ۔ اس لیے اس ملک کے نظام کو بھی دنیا کے مہذب ممالک کے نظاموں کی طرح چلائیں ۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں کے صفایا کی مہم