میزائل’ امریکی پابندی اور وزارت خارجہ

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے تعلق کے الزامات پر تجارتی اداروں کیخلاف امریکی پابندیوں پر ترجمان وزارت خارجہ نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کی اس کارروائی کو جانبدارانہ سمجھتا ہے ،پاکستان کا مؤقف ہے کہ یہ کاروائی سیاسی ہے ،ماضی میں تجارتی اداروں کی اس طرح کی فہرستیں محض شک پر مبنی تھیں، ترجمان نے واضح کیا ہے کہ ملوث اشیاء کسی برآمدی کنٹرول نظام کے تحت درج نہیں ہیں، کچھ ممالک عدم پھیلاؤ کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنی پسندیدہ ریاستوں کیلئے جدید فوجی ٹیکنالوجیز کیلئے لائسنس کی ضرورت کو آسانی سے معاف کر چکے ہیں، ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق یہ دوہرے معیار اور امتیازی سلوک عالمی عدم پھیلاؤ کی حکومتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں، یہ دوہرا معیار بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرے میں ڈالتا ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ جب سے سوویت یونین کا انہدام ہوا ہے اور اس میں شامل وسط ایشیائی حکومتوں نے ایک بار پھر خود مختار ریاستوں کی حیثیت اختیار کی ہے، جبکہ چین نے بھی تب تک ترقی کے وہ مدارج طے نہیں کئے تھے جیسا کہ آج وہ امریکہ کے مقابلے میں خم ٹھونک کر کھڑا ہو چکا ہے، تاہم وہ اب بھی اپنی ڈپلومیسی کی وجہ سے کھل کر امریکہ کو للکارنے سے گریزاں رہ کر اقتصادی طور پر اپنی حیثیت مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں مصروف ہے، تاکہ کسی تصادم سے گریز کرتے ہوئے اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کر سکے، حالانکہ امریکہ اپنی” معاندانہ” پالیسیوں کے تحت ہر قدم پر چین کی اقتصادی پیشرفت کے آگے بند باندھنے میں اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، لیکن اب عالمی حالات بہت بدل چکے ہیں ،اور اب سابق سویت یونین کی تحلیل کے باوجود روس ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو چکا ہے اور وہ کھلم کھلا امریکی پالیسیوں پر اعتراضات کر رہا ہے، جبکہ اس وقت امریکہ اور اس کے اتحادی روس کے ہمسایہ ملک یوکرین کیخلاف روسی حملوں میں یوکرین کا ہر طرح ساتھ دیکر روس کو ایک بار پھر اقتصادی طور پر نقصان پہنچانے میں مددگار ہیں، جبکہ اس کے سنگ سنگ و پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر مختلف نوع کے الزامات لگا کر اس پر پابندیاں لگانے کی کوششیں کر رہا ہے، اس کی یہ پابندیاں ان چینی اداروں پر ہیں جبکہ اس سلسلے میں جس قسم کی پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ان میں ایسی کوئی ممنوعہ اشیاء سرے سے موجود ہی نہیں ہیں جن کو عالمی سطح پر ناقابل ترسیل قرار دیا گیا ہو، یعنی ان کی تجارت پر کوئی پابندی موجود نہیں ہے، مگر محض شک کی بناء پر ان میں ایسی ٹیکنالوجی اور معاون اشیاء شامل کرنے کی کارروائیاں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں ،اور اب صرف شک کی بناء پر پابندیوں کا نہ کوئی جواز ہے نہ ہی انہیں قبول کیا جا سکتا ہے، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض عالمی قوتیں جن میں امریکہ سر فہرست ہے، اپنی پسندیدہ ریاستوں کو جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی کے وقت ان ضرورتمند ممالک کو لائسنس کے تکلف سے بھی مبرا قرار دے کر خاموشی سے انہیں یہ ٹیکنالوجی فراہم کرتے ہیں ،مگر جو ناپسندیدہ ممالک ہوتے ہیں ان کو پابندیوں کی زد میں لا کر انہیں باہمی تجارت سے روکنے کی سعی کرتے ہوئے ان پر قدغن لگاتے ہیں لگاتے ہیں اس وقت چونکہ پاکستان اور چین دونوں کے درمیان تزویراتی تعلقات کے فروغ میں سی پیک ایک اہم فیکٹر ہے جو امریکہ اور بھارت سے کسی طور ہضم نہیں ہو رہا ،اس لئے پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے ایک سابق حکومت کی جانب سے سی پیک کو کھنڈے لائن لگانے کے بعد اس منصوبے کو دوبارہ فعال کر دیا ہے اور اس پر تیزی سے عمل درآمد شروع کر دیا گیا ہے، اس لئے امریکہ اور بھارت کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں اور وہ ہر قیمت پر اسے ایک بار پھر ختم کرنے کیلئے ہر حربے میں ناکام ہو گئے ہیں، تو اب پاکستان اور چین کے مابین بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے میں چینی کمپنیوں پر قدغنیںلگانے کیلئے خم ٹھونک کر آگے آ چکے ہیں، تاہم پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی وضاحت کر کے امریکی سازش سے پردہ کھینچ لیا ہے، امریکہ کب تک دنیا پر اپنی مرضی تھوپ کر من مرضی کرتا رہے گا؟یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے جس پر عالمی برادری کو غیر جانبدارانہ انداز میں سوچنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:  بیماری کو جڑ سے اکھاڑیئے