پشاور کا بے ہنگم ٹریفک

دنیا کے تمام بڑے شہروں کا سب سے بڑا مسئلہ وہاں کا ٹریفک لوڈ ہے ، اس لئے جتنے بھی میٹروپولٹن شہر ہیں وہاں پیک آورز میں گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے ، لیکن ان شہروں میں سفر کرنے کے متبادل ذرائع دستیاب ہوتے ہیں ، ہمارے ملک کی آبادی بہت زیادہ ہے اور کراچی ، لاہور اور پشاور جیسے شہروں کی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہورہا ہے ،ان شہروں کی حدود اب ان شہروں سے نکل کر دیگر شہروں تک پہنچ گئی ہیں ۔ پشاور شہر کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس کیلئے کسی نے ٹاؤن پلاننگ نہیں کی اور اس کی آبادی ضربی حساب سے بڑھتی رہی اور اب یہ حال ہے کہ اس شہر کے مکین روزانہ اپنے گھر آنے جانے کیلئے گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں ۔ دنیا میں بی آرٹی یا میٹرو سروس اس لئے دی جاتی ہے کہ شہر میں ٹریفک کا مسئلہ حل ہو مگر پشاور میں عقل کے اندھوں نے نصف سے زیادہ سڑک بسوں کو دیدی ہے ۔ جہاں صرف آٹھ فٹ ستونوں کیلئے دے کر کام چلایا جاسکتا تھا وہاں کہیں پچاس اور کہیں ساٹھ فٹ کی سڑک بنیادی شاہراہ سے کاٹ کر اس پر بس چلا دی گئی ۔ اور جو سڑک پوری ٹریفک کیلئے دی گئی اس پربھی جگہ جگہ اورہیڈپل بنا کر گزرنے والی سڑک کو مزید تنگ کردیا گیا جبکہ پشاور شہر میں ان تین چار برسوں میں لاکھوں نئے مکین آئے اور ان کیساتھ ساتھ ہزاروں گاڑیوں کا بھی اضافہ ہوا۔ اور اس پر یونیورسٹی روڈ کے دونوں اطراف سروس روڈز ختم کردئیے گئے اور بڑے بڑے برینڈز کی دکانوں پر دکانیں کھلتی جارہی ہیں جس کی وجہ سے اس روڈ پر رش بے انتہا بڑھ گیا ہے اور روز بروز مزید بڑھ رہا ہے ۔ دس برسوں سے رنگ روڈ ورسک روڈ سے آگے بن نہیں رہا جس کے سبب سے ہر طرف سے ٹریفک اس ایک یونیورسٹی روڈ پر آرہی ہے ۔ حیات آباد اور ریگی روڈ پر تیرہ نئی ہاؤسنگ کالونیاں اور اس روڈ کے اطراف میں بسنے والے لاکھوں لوگ اس روڈ کا استعمال کرتے ہیں ۔ جمرود اور کارخانوں مارکیٹ کیلئے اسی روڈ کا استعمال ہوتا ہے ۔ پشاور کے تمام تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر ،عدالتوں ، سکرٹریٹ،اور مارکیٹوں کیلئے بھی اس روڈ کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس روڈ پر جتنی آبادی ہے ان کے پاس اتنی گاڑیاں ہیں جو شاید پورے ضلع میں نہ ہوں اس لئے کہ وہ طبقہ جو گاڑیاں خرید سکتا ہے وہ صوبہ بھر سے آکر پشاور کے ان پوش علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ۔
یہ روڈ آج سے د س برس پہلے کے ٹریفک لوڈ کیلئے بھی کم تھا ۔مگر ٹاؤن پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے اب یہ روڈ گزرنے والوں کیلئے وبال جان بن گیا ہے ۔ خصوصاً صبح جب بچے سکول ، کالج اور یونیورسٹی جاتے ہیں اور ان علاقوں کے مکین دفاتر اور روزگار کے سلسلے میں نکلتے اور دوپہر کو جب سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے واپسی ہوتی ہے اور شام کو جب بیشتر لوگ گھر کو واپسی کرتے ہیں اور زیادہ تر لوگ خریداری اور دیگر کاموں کیلئے گھر سے نکلتے ہیں ان تین اوقات میں اس روڈ پر سفر کرنا ایک اذیت سے کم نہیں ہے ۔ جہاں جہاں بی آرٹی کے آور ہیڈ پل بنائے گئے ہیںوہاں صرف دو یا تین گاڑیاں گزر سکتی ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک جام کا بوٹل نک بنتا ہے جو پھر بڑھتے بڑھتے حیات آباد کے فیزی تھری چوک تک پہنچ جاتا ہے ۔ اس پر ہماری بے صبری اور غیرمنظم نن لین اپروچ کی وجہ سے اور رکشوں اور ٹیکسیوں کی وجہ سے رہی سہی کسر بھی پوری ہوجاتی ہے ۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا حل اگر نہ نکالا گیا تو یہ شہر ناقابل رہائش ہوجائیگا۔ بی آرٹی کے جتنے بھی اوور ہیڈ پل ہیں ان کو سڑک سے چھے فٹ پیچھے اگر ہٹایا جائے تو کسی حد تک اس مسئلہ پر قابو پایا جاسکتا ہے اس لئے کہ ٹریفک کی روانی کو ان پلوں نے شدید متاثر کیا ہے ۔اس کیساتھ ساتھ اس روڈ پر جتنے بھی کپڑوں کے بڑے بڑے برینڈز ہیں ان کو اگر پلازوں میں شفٹ کیا جائے تو بھی ٹریفک کی روانی بہتر ہوسکتی ہے اس لئے کہ ان برینڈز کے سامنے سینکڑوں گاڑیاں خواتین کو اتارنے کیلئے رکتی ہیں اور بیشتر گاڑیاں سڑک پر پارک بھی کردی جاتی ہیں جس سے روڈ تنگ ہوجاتا ہے اور ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتا ہے ۔ رنگ روڈ جو کہ ورسک روڈ تک بن چکا ہے اس کاباقی ماندہ حصہ بھی اگر فوراً تعمیر کیا جائے تو اس سے بھی کافی بہتری آئیگی اس لئے کہ شہر سے باہر جانیوالی ٹریفک اس روڈ سے سیدھی جائیگی ۔ ورسک روڈ پر سکولوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے اور ان سکولوں اور کالجوں کی بسیں جن کی تعداد اب ہزار سے زیادہ ہوگئی ہے وہ صبح اور چھٹی کے اوقات میں ٹریفک کو شدید متاثر کرتی ہیں ۔ان کا متبادل ڈھونڈا جائے یا تو ورکس روڈ کے اندر سے کوئی روڈ بنایا جائے یا پھر رنگ روڈ کو مکمل کرکے ان بسوں کو اس روٹ پر ڈالا جائے ۔ ریلوے لائن بیکار خالی پڑی ہوئی ہے جو کارخانوں اور حیات آباد سے شہر کے دوسرے سرے تک جاتی ہے جس کے اطراف میں ساری زمینیں لوگوں نے قبضہ کی ہوئی ہیں ۔ اسی ریلوے لائن پر تھوڑی سی محنت کرکے اس کو دو رویہ کرکے ٹرین چلائی جاسکتی ہے ۔جس سے ایک تو لوگوں کو کم قیمت میںسواری میسر آئیگی، لوگ بروقت اپنے اپنے منزلوں تک پہنچ سکیں گے اور شہر کے ٹریفک کا سارا مسئلہ حل ہوجائیگا ۔ یہ ایک ایسا حل ہے جو صرف پشاور کے تمام م ٹریفک مسائل کا حل ہے ۔ ریلوے بھی حکومت کی ہے ایک ٹریک بچھا ہوا ہے ۔ صرف دوسرا ٹریک بچھانا ہے اور ان پر دو ٹرینیں چلانی ہیں ۔ لیکن ہمارے ملک میں سیاست لوگوں کی مفاد کیلئے نہیں کی جاتی بلکہ پاکستان کی بربادی اور اپنے فائدوں کیلئے کی جاتی ہے ۔ سو ارب سے زیادہ بی آر ٹی پر لگانے کی بجائے اگر دس ارب اس ریلوے ٹریک پر لگائے جاتے تو شہر کے اندر سڑکیں بھی تنگ نہ ہوتیں اور لوگوں کو ایک بہترین متبادل سواری بھی دستیاب ہوتی ۔
یونیورسٹی روڈ پر ہزاروں لوگوں کا کاروبار بھی خراب نہ ہوتا اور لوگ سہولت کیساتھ گھروں دفتروں اور طلبہ اپنے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹی تک جاسکتے ۔شہر ی منصوبہ بندی آج سے کئی سو برس پہلے مائیکل اینجلو نے کی تھی روم شہر کی ہے جس میں آج بھی شہری سکون سے زندگی گزارتے ہیں اور ہم نے اس جدید ترین دور میں شہروں کو ہجوم اور بے ترتیبی کا ڈھیر بنا دیا ہے ۔ ہمارا نظام تعلیم اور خصوصاً مخصوص شعبہ ہائے تعلیم صرف اور صرف ڈگری تک محدود ہوگئے ہیں ۔ انجینئرنگ اور اربن اور ریجنل پلاننگ کے تعلیم یافتہ ہزاروں تعداد میں فارغ التحصیل صرف پشاور میں موجود ہیں لیکن ان کی استعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اگر ہم نے دنیا کی طرح ترقی کرنی ہے تو اپنی تعلیم اور تحقیق پر توجہ دینی ہوگی اور جو جو جس جس شعبہ میں تعلیم حاصل کرتا ہے اور تحقیق کرتا ہے اس سے عملی طور پر کام بھی لینا چاہئیے۔اگر ایسا ہوتا تو کیا اس شہر کا یہ حال ہوتا ؟۔ یہاں شخصی خواہشات کی بنیاد پر سارے کام کئے جاتے ہیں اگر اس کو روکا جائے اور تحقیق اور منصوبہ بندی کی بنیاد پر کام شروع کیا جائے تو بیشتر مسائل از خود حل ہوجائیں گے ۔

مزید پڑھیں:  شدت پسندی کا رخ پشاور کی جانب؟