شدت پسندی کا رخ پشاور کی جانب؟

اخباری اطلاعات کے مطابق خیبر کے علاقے تیراہ میں شدت پسندوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کے آپریشن کے باعث صورتحال دہشت گردوں کے لئے ناقابل برداشت ہونے کے نتیجے میں وہاں سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے پشاور کے مضافاتی علاقوں کی جانب رخ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جبکہ ان کی موجودگی کی اطلاعات کی وجہ سے محولہ علاقوں میں سرچ آپریشنز میں تیزی لائی گئی ہے ، ادھر ایک اور خبر کے مطابق پشاور کے ریگی ماڈل ٹائون پولیس سٹیشن پر نامعلوم دہشت گردوں نے راکٹ سے حملہ کر دیا تھا مگر پولیس نے اس حملے کو کامیابی سے پسپا کر دیا اور پولیس کی جوابی فائرنگ سے دہشت گرد فرار ہونے پر مجبور ہو گئے ، حملے میں کسی جانی نقصان کی کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی ، اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں نے پولیس سٹیشن کی طرف راکٹ فائر کئے تاہم جوابی کارروائی کرتے ہوئے ڈیوٹی پر موجود پولیس نے ان نامعلوم حملہ آوروں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ، اس واقعے کے بعد پولیس کی مزید نفری وہاں پہنچ گئی اور حملہ آوروں کے خلاف تفتیش کا آغاز کرتے ہوئے سرچ آپریشن شروع کر دیا ، جہاں تک خیبر کے علاقے تیراہ میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا تعلق ہے اس حوالے سے مصدقہ اطلاعات پریس تک ایس پی محمد زمان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران پہنچائیں ، جنہوں نے انکشاف کیا کہ تیراہ میں اس وقت دہشت گردوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے جس کے باعث شدت پسندوہاں سے بھاگنے پرمجبور ہو رہے ہیں اور پشاور کے مضافاتی علاقے متنی میں جمع ہو رہے ہیں ، تاہم ان شدت پسندوں کے خلاف پولیس اور دیگر سیکورٹی ادارے باہم مل کر وقتاً فوقتاً آپریشن کر رہے ہیں پولیس حکام نے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ ان علاقوں میں شدت پسند ناکے لگا کر وارداتیں کر رہے ہیں جبکہ ایسی اطلاعات ان کے نوٹس میں نہیں ہیں ، یہاں قابل ذکر امر یہ بھی ہے کہ ابھی چند روز پہلے پشاور کے رنگ روڈ سے سڑک کنارے ایک خود کش جیکٹ برآمد ہوئی تھی جبکہ اس سے قبل ورسک روڈ پر ایک طاقتور وزنی بم برآمد کرکے پشاور کو ممکنہ تباہی سے بچایا گیا تھا امر واقعہ یہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت ہونے کے ناتے پشاور ایک عرصے سے سافٹ ٹارگٹ کے طور پر دہشت گردانہ کارروائیوں کی زد میں رہا ہے ، ماضی میں نہ صرف سیاسی اجتماعات ، مذہبی جلوسوں اور مساجد ، امام بارگاہوں ، کلیسائوں کے ساتھ بعض مندروں اور گوردواروں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے بلکہ پشاور کے مشہور سیاسی خاندانوں ، اہم پولیس حکام ، اور شہر میں مقیم سکھ تاجروں کو ڈائریکٹ نشانہ بنانے کی وارداتیں اس شہر کے ماتھے پر خون کی لکیریں کھینچ کر خوف و ہراس پھیلانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ، گزشتہ کچھ عرصے کے دوران تھانوں ، پولیس چوکیوں اور دیگر مقامات پر دہشت گردانہ حملوں کے ڈانڈے ایک جانب مضافاتی علاقے متنی جبکہ دوسری جانب ورسک روڈ کے قریب قبائلی علاقوں سے ملتے رہے ہیں ، زیادہ تر حملے متنی میں چھپے ہوئے دہشت گرد ہی ان حملوں میں ملوث قرار دیئے جاتے رہے ہیں ، اور اب ایک بار پھر تیراہ سے راہ فرار اختیار کرنے والے شدت پسندوں کی جائے پناہ متنی ہی قرار دی جا رہی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو متنی کے علاقے میں ان دہشت گردوں کو پناہ دے کر انہیں صوبائی دارالحکومت پر حملہ آور ہونے کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں ؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کی اہمیت اپنی جگہ مگر اصل آپریشن ان عناصر کے خلاف ہونی چاہئے جو ان دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں اور پھر ان کو سہولت دے کر صوبائی دارالحکومت پر دہشت پھیلانے میں مدد فراہم کرتے ہیں دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف اقدام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کے خلاف بھی سخت ایکشن لینا انتہائی ضروری ہے اس لئے کہ اگر سہولت کاری نہ ہو تو نہ توشدت پسندوں کو پناہ مل سکتی ہے نہ ہی یہ پشاور پر حملہ آور ہونے کی جرأت کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔صوبائی دارالحکومت پشاور میں اس طرح سے دہشت گردوں کی آمد اور دعوت مبارزت دینے کے بعد واپس فرار ہونا پولیس فورس کے لئے بڑا چیلنج ہے خصوصاً ایک ایسے وقت جب پولیس بلا شرکت غیرے دہشتگردوں سے نمٹنے کی اہلیت رکھنے کی داعی ہو بلا شبہ خیبرپختونخوا پولیس بہادر اور نڈر ہے سی ٹی ڈی بھی متحرک ہوگی لیکن جس طرز کی کارروائی دہشت گرد عناصر کی جانب سے ہوتی ہے وہ چھاپہ مار اور گوریلا طرز کی ہے جس کا مسکت جواب خصوصی تربیت یافتہ فورس ہی دے سکتی ہے اس طرح کے عناصر کے مقابلے کے لئے ان عناصر کی چالوں سے آ گاہ اور پائے کے انٹیلی جنس کی صلاحیت کا ہونا بھی ناگزیر ہے بہتر ہوگا کہ کوئی بھی فورس تنہا پرواز اور پہل کاری کی سعی کی بجائے مربوط مساعی کو ترجیح دے تاکہ کوئی خلا نہ رہے خاص طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مزید فعالیت اور پیشگی اطلاعات اکٹھی کرکے دہشت گردوں کو ان کی کمین گاہوں سے نکلنے سے قبل ٹھکانے لگانے کا بندو بست کریاس طرح سے ہی شہر کو محفوظ بنانے کی ذمہ داری پوری کرنے کے حق کی ادائیگی ہوسکے گی ۔

مزید پڑھیں:  چین کی موجودہ ترقی کا پوشیدہ راز