آئینی بحران سنگین

عدلیہ تقسیم،آئینی بحران سنگین ،سپریم کورٹ نے سینئر ترین جج ،فائزعیسیٰ کافیصلہ مستردکردیا

ویب ڈیسک:پاکستان مین سیاسی اورمعاشی بحران کے بعدآئینی بحران بھی سنگین ہوگیاجہاں عدلیہ میں واضح تقسیم نظرآرہی ہے اورسپریم کورٹ نے اپنے ہی سینئرترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کافیصلہ مستردکردیاہے جبکہ دوسری طرف انتخابات سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت کرنے والا بنچ بھی ایک بارپھرتحلیل ہوگیااوروفاقی وزراء کے ساتھ ساتھ بعض وکلاء حلقوں کی طرف سے بھی عدلیہ پرتنقید کی جارہی ہے۔ جمعہ کے روز سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184/3 کے مقدمات پر سرکلر جاری کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف قرار دے دیا۔رجسٹرار سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے پراپنا سرکلر جاری کر دیا ہے۔
سرکلر کے مطابق جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا گیا اور اس انداز میں بینچ کے سوموٹو لینے کو پانچ رکنی عدالتی حکم کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ سوموٹو صرف چیف جسٹس آف پاکستان ہی لے سکتے ہیں اس لیے فیصلے میں دی گئی آبزرویشن کو مسترد کیا جاتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف ہے۔
علاوہ جمعہ کے روز ہی انتخابات سے متعلق تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کے دوران بینچ کے ایک اور جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بھی سماعت سے معذرت کرلی جس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔چیف جسٹس نے عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ بنانے کی درخواست فی الحال مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لے کر طلوع ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کر رہے ہیں، کچھ دوسرے ججز پر تنقید کر رہے ہیں، ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کل تک جیلوں میں رہنے والے آج اسمبلی میں تقاریر کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عوام کے نمائندے ہیں
عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی،عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں یا ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑے گا۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست بھی مکمل ہو رہی ہے اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آڈیو لیک کی بنیاد پر کیسے نشانہ بنایا جائے، قانون پر بات کریں تو میں بطور جج سنوں گا، میرے ججز کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا، میرا بھی دل ہے میرے بھی جذبات ہیں، جو کچھ کیا پوری ایمانداری سے اللہ کو حاضر ناظر جان کر کیا۔جمعہ کے روزسماعت کے آغاز پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک بات آپ کو بتا دیں ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔
کچھ اختلافات سامنے آئے ہیں مگر ہمارا ایک دوسرے سے قریبی تعلق ہے۔چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ کچھ سیاسی معاملات کی وجہ سے اختلافات آئے اور ہم مل کر اس صورتحال سے نمٹیں گے۔دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا کرنا ہر فریق کا حق ہے لیکن حکومت یہ تاثر دے کہ من پسند بینچ بن رہے ہیں تو یہ کتنا سنگین الزام ہے۔دوسری طرف وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑنے کہا ہے کہ اگر الیکشن التوا کے کیس کی سماعت تین رکنی بینچ کرے گا تو کیا سیاسی استحکام کے معاملات حل ہو سکیں گے۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اگر اقلتیی فیصلے صادر کیے جائیں گے تو بحران شدید ہو گا۔ توقع کر رہے ہیں کہ چیف جسٹس باقی ججز کو بھی اعتماد میں لیں گے۔
انھوں نے عدلیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو سیاستدانوں کو کہتے ہیں وہ اصول اپنے ادارے پر بھی لاگو کریں۔وزیر قانون نے کہا کہ تین رکنی بینچ نے جب سماعت شروع کی تو یہی نکتہ بار کونسل کے عہدیداران نے رکھا، ایک بہت بڑا آئینی مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے کہاکہ انتخابات کیس متنازع ہوچکا جس کے لیے ججز ہی نہیں مل رہے۔ 9 ججز سے شروع ہونے والا معاملہ اب 3 ججز پر آپہنچا ہے۔ اگر ترازو کے پلڑے برابر نہیں ہوں گے تو ملک میں بحران ہوگا پھر ہر گلی اور محلے میں سپریم کورٹ لگے گی۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال ملک کو انارکی کی طرف نہ دھکیلیں۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رانا ثنا نے کہا کہ قاضی فائز عیسی کا فیصلہ ایک عدالت کا فیصلہ ہے، میں نے آج تک نہیں سنا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو ایک سرکلر سے ختم کر دیا جائے، سپریم کورٹ کے بینچ کے مقابلے میں رجسٹرار کی کوئی اہمیت نہیں ہے، قاضی فائز والے بینچ کا فیصلہ اس وقت تک چلے گا جب تک وہ چیلنج نہیں ہوتا، اس فیصلے کو سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ رانا ثناء اللہ نے زور دیا کہ چیف جسٹس سے گزارش ہے انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔

مزید پڑھیں:  سپریم کورٹ کو لگام ڈالنے کا وقت آگیا ہے ، ایمل ولی خان