1 574

پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ کاحقیقی مستحق

عام سرنج پانچ گیج کی ہوتی ہے ۔جبکہ تین گیج کی بھی سرنج استعمال ہوتی ہے۔مگرسترہ گیج کی موٹی سرنج اگرکسی کے بازو میں پیوست کر دی جائے۔ پھرایک بار نہیں مختلف اوقات میں 136بار یہ عمل دہرایا جائے۔پھر جس کو سرنج کی چھبن کا احساس ایک سرخوشی دے وہ کوئی اور نہیں بلکہ پوری دنیا میں نہیں ۔وہ صبیح احمد ہے۔وہ گورنمنٹ کالج پشاور میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کے عہدہ پر رہے ۔اس کو سرنج کی چبھن الٹا ایک طمانیت کا احساس دلاتی ہے ۔جی ہاں وہ اتنی ہی مرتبہ عطیہ ٔ خون دے کر حقیقی طور پردنیا بھر میںسب سے زیادہ خون دینے والا انسان ہے۔ ورلڈ ریکارڈ والوں نے سو مرتبہ خون دینے والے کو عالمی ریکار ڈ کی سند دے رکھی ہے ۔جیتندر سنگھ شنٹے بھارت میں ایک وزیر ہیں ۔ان کو وہاں کی حکومت نے اور دنیا بھر نے سراہاہے۔پھر اس کے بعد وہ جاکر تھیلی سیمیا کے مریض بچوں کے لئے قریب کے خون کے ہسپتال میں جاکر اپنا خون عطیہ کر کے آ جاتا ہے۔ہمارے ہاں حکومت ِ وقت کے اور بہت مسائل ہیں جن کو انھوں نے روز کے حساب سے دیکھنا ہوتا ہے۔ مگر اس طرف ان کی کوئی توجہ نہیں ہے ۔حالانکہ وہ چاہیں تو اس موجودہ وقت میں صبیح احمد کی اس خدمت کو دنیا کے سامنے لا کر اپنے آپ کو پر امن ملک کے طور پر ثابت کر سکتے ہیں۔کیونکہ ہمارے اوپر بد امنی کے الزامات مختلف ادوار میں لگتے رہے ہیں۔دنیا کو بتلایا جا سکتا ہے کہ یہ بلڈ ڈونر نہ صرف پاکستان میں سول ایوارڈ ( پرائڈ آف پرفارمننس) کا مستحق ہے ۔بلکہ اس کو عالمی سطح کا نوبل پرائز دینے کا حق بنتا ہے۔صبیح احمد کے لئے فخر کرنے کے حوالے اور بہت ہیں ۔مگر وہ عطیہ ٔ حون کو سب سے مقدم سمجھتا ہے ۔حالانکہ وہ تعلیمی طور پر او رپھر اپنی سرکاری نوکری کے حوالے سے ہائی پروفائل کا آدمی ہے ۔اردو آنرز میں گولڈ میڈلسٹ ہے ۔پھر اس کے کریڈٹ پر تین کتابیں ہیں ۔جن میں سے کتاب ” آواز ” کو پاکستان رائٹر ز گلڈ نے سال کی بہترین کتاب کا انعام دے رکھا ہے ۔وہ عرصہ بیس سال سے تواتر سے کالم رائٹر ہے ۔مگر وہ اپنے تعارف میں بلڈ ڈونیشن کو سامنے رکھتا ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ وہ اس کا صلہ چاہتا ہے۔ موجودہ وقت کے آئی جی اسلام آبادقاضی جمیل صاحب نے ان کو فاطمید فاؤنڈیشن کی ایک تقریب میں پاکستان میں سب سے زیادہ خون کا عطیہ کرنے کی سند دی ہے ۔اُس وقت وہ پشاور میں بطور سی سی پی اور تعینات تھے۔سول ایوارڈ کا مقصد شخصی خیر خواہی نہیں ۔بلکہ قوم کو باشعور اور بالغ نظری دینا ہے ۔ قوم کے فرزندان کو یہ معلوم ہو جائے کہ ہمارے ہاںایک ایسا انسان ہے جس کو اس کی اس گراں قدر خدمت کی وجہ سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیاہے ۔اس نے زیادہ تر عطیات خون کی بیماری کے حامل بچوںکو تھیلی سیمیاکے ہسپتال جاکر دیئے ہیں۔ اس کے ساتھ اس کی اہلیہ نے 45بار خون دیا ہے ۔جبکہ ان کے بیٹے علی احمد نے 50 بار عطیہ خون دیا ہے ۔ ان کے دوستوںیاروں نے بھی اسی طرح 80مرتبہ خون کے عطیات دے رکھے ہیں ۔ان کے رشتہ داروںنے بھی خون کے عطیات دیئے او راچھی خاصی تعداد میں دیئے ہیں۔ ان کے برادرِ نسبتی نے منفی او بلڈ گروپ 60مرتبہ دیا ہے ۔اس طرح کے پاکستانی شہری اس لئے ایوارڈ کے مستحق ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر ہمارے ہم وطن ان سے اچھا سبق سیکھیں۔ان کے بے شمار شاگردوںاور فیس بک کے دوستوں نے باقاعدہ کہہ کر بلڈ دیا کہ ہم پروفیسر صاحب سے متاثر ہو کر خون دے رہے ہیں۔یہ ایوارڈ اس کو نہیں چاہئے ۔ اس سول ایوارڈکی ضرورت اس قوم کو ہے۔جس کواپنی نیک نامی کے لئے وہ اپنے ماتھے کا جھومر بنا سکتی ہے ۔جب ایک سال قبل کے لاک ڈاؤن میں دن کی روشنی میں بھی سڑکو ں پر ایک آدمی نہ تھا ۔اس وقت ہسپتال میں پڑے تھیلی سیمیا کے بچے اپنے اپنے بیڈ پر پڑے خون دینے والوں کا انتظار کرتے تھے۔ اس وقت پروفیسر صاحب نے اپنی ایک اخباری تحریرمیں حوالہ دیا کہ بچے انتظار کر رہے ہیں ۔ پھر اس کے بعد ہسپتال میں شہریوں نے خطرہ مول لے کر جاناشروع کیا اور بچوں کو خون کی سپلائی بحال رکھی۔یہ صاحب 1987ء سے خون کا عطیہ دے رہے ہیں۔یہ کہنے میں حرج نہیں کہ اس وقت خون دینے کے سلسلے میں جوآگاہی پشاور کے عوام کو براہِ راست اور بالواسطہ ملک کے عوام کو حاصل ہے ۔اس میں صبیح احمد کابھی کردار ہے ۔اگر پروفیسر موصوف کی ہمت بڑھائی گئی اور انھیں ملکی سطح کے ایواڈر سے نوازا گیا تو اس سے ان کی شہرت تو ہوگی ۔ مگر اس سے خون عطیہ کرنے کے شعبہ کو بھی سول ایوارڈ میں بطورِ خدمت شامل کر لیا جائے گا۔ کیونکہ عام طور سے سول ایوارڈ کارکردگی پر دیئے جاتے ہیں ۔مگر کبھی سنا نہیں کہ خدمت پر بھی ایواڈر دیا گیا ہے۔ یہ کارکردگی ہرگز نہیں یہ تو خدمت ہے ۔کیونکہ اپنے لئے جینا تو کوئی زندگی نہیں ۔یہ توجانوروں کی بھی خصوصیت ہے ۔مگر انسان کو دوسرے کے کام آنا اصل زندگی ہے ۔

مزید پڑھیں:  پانی کے ضیاع پر افسوسناک خاموشی