شہباز شریف بہترین متبادل

اپوزیشن جماعتیں متحد ہو کر صف آراء ہو کر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف آخری مرحلے کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں، ایسے حالات میں یہ سوال بڑی شدت کے ساتھ سامنے آ رہا ہے کہ اگر اپوزیشن کی تحریک کامیاب ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو پھر ملک کی باگ ڈور کسے سونپی جائے؟ اس حوالے سے ہر جماعت اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تاہم اقتدار کے سبھی شراکت دار میاں شہباز شریف کے نام پر متفق دکھائی دیتے ہیں، میاں شہباز پر اتفاق کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک یہ کہ وہ صلح جُو لیڈر ہیں دوسری وجہ ان کا بہترین منتظم ہونا ہے۔ میاں شہباز شریف کے علاوہ دوسرے کسی لیڈر میں ایسی خصوصیات دکھائی نہیں دیتی ہیں، ان دو خصوصیات کو اس لئے ترجیح دی جا رہی ہے کیونکہ وطن عزیز کو اس وقت سیاسی استحام اور معاشی بحران کا سامنا ہے، سیاسی استحکام وہ شخص قائم کر سکتا ہے جس منتقم مزاج نہ ہو چونکہ صوبہ پنجاب کا ملکی معیشت میں اہم کردار ہوتا ہے اس لیے مقتدر حلقے یہ سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ پنجاب جیسے اہم صوبے کو شہباز شریف نے اپنی خداداد اور انتظامی صلاحیتوں کی بدولت ترقی پر پہنچا دیا تھا جس کا اعتراف اپنے، پرائے اور بین الاقوامی سطح پر یکساں کیا جاتا ہے۔
ایک موقع پر ترک صدر رجب طیب ایردوان نے شہباز شریف سے متعلق کہا تھا کہ اگر شہباز شریف اسی طرح کام کرتے رہے تو بہت جلد ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیںگے۔ اس ستائش کی وجہ یہ تھی کہ ترکی کے عظیم لیڈر طیب ایردوان نے برسوں کے تجربے کے بعد جس نتیجے پر پہنچ کر ترکی کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا تھا، شہباز شریف نے چند ماہ میں اس ماڈل کو مکمل سٹڈی کر لیا تھا، صفائی کی ناقص صورتحال کا حل تلاش کرنے سے لے کر توانائی بحران کے خاتمے تک ترکی سے مدد حاصل کی تھی۔، چین کی مدد سے ہی ہم نے توانائی بحران پر قابو پایا ہے، یہ بھی سچ ہے کہ اگر پنجاب میں شہباز شریف جیسا منتظم نہ ہوتا تو شاید توانائی کا مسئلہ اپنی جگہ پر قائم رہتا۔
شہباز شریف کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بیوروکریسی سے کام لینا جانتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جہاں ضرورت ہوتی ہے شہباز شریف موقع پر پہنچ جاتے تھے اگر انہیں معلوم ہو جاتا کہ عوامی معاملات میں کوتاہی برتی گئی تھی تو وہ اعلیٰ ترین افسروں کو بھی رعایت نہیں دیتے تھے۔ 2018ء انتخابات کے نتیجے میں جب پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو لاہور کے ایک عزیز نے بہت عمدہ بات کہی کہ شہباز شریف اپنے دور میں اس قدر ترقیاتی کام کروا گئے ہیں جس کا فائدہ تحریک انصاف اٹھائے گی یعنی تحریک انصاف میاں شہباز شریف کی محنت کا پھل کھائے گی، مگر بدقسمتی سے تحریک انصاف کی حکومت شہباز شریف کی برسوں کی محنت کا ثمر حاصل کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی کیونکہ شہباز شریف کے مقابلے میں عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا گیا، ان دونوں کی وزرات اعلیٰ کا کسی بھی اعتبار سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے، عثمان بزادر کا شہباز شریف کے ساتھ موازنہ تو کجا جوکام تکمیل کے آخری مراحل میں تھے تحریک انصاف کی حکومت انہیں بھی بروقت مکمل نہیں کر سکی۔
2018ء میں جب مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت اورنج ٹرین کی آزمائشی سروس کا آغاز کر دیا گیا تھا اور توقع کی جا رہی تھی کہ محض دو یا تین ماہ کی مدت میں اورنج لائن ٹرین سروس شروع ہو جائے گی، مگر جب تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو محسوس ہوا کہ جیسے اورنج لائن ٹرین ان کی ترجیح میں شامل ہی نہیں ہے،اب تکمیل کے بعد اورنج لائن ٹرین سے روزانہ لاکھوں افراد مسفید ہو رہے ہیں جس سے انہیں کم خرچ میں بہترین سفری سہولیات دستیاب ہیں۔
اسی طرح پنجاب کے تین بڑے شہروں میں میٹروبس سروس شروع کی گئی ہے، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور ملتان میں میٹرو بس سروس سے ہزاروں افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان منصوبوں کو خالصتاً عوامی منصوبے کہا جا سکتا ہے جس سے زیادہ تر غریب طبقہ مسفید ہو رہا ہے۔ اراضی کا ریکارڈ آن لائن کرنا اور صحت کارڈ کا اجراء شہباز شریف کے شروع کردہ منصوبے ہیں جنہیں موجودہ حکومت نے وسعت دی ہے۔صحت اور تعلیم کی طرف جس قدر توجہ شہباز شریف نے دی ہے اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ پسماندہ علاقوں کی لڑکیوں کو تعلیم دلانے کیلئے اربوں روپے کے وظائف جاری کئے گئے اور ٹیکنالوجی کے فروغ کیلئے عمر سیف جیسے آئی ٹی ماہر کی خدمات حاصل کی گئیں۔ گاؤں دیہات میں کارپٹڈڈ روڈز کاجال بچھا دیا گیا، جو دیہی آبادی کی ترقی میں نہایت اہمیت کا حامل منصوبہ ہے۔
یہ وہ عوامل ہیں جس کی بنیاد پر کہا جا رہا ہے کہ ملک کو موجودہ بحران سے شہباز شریف ہی باہر نکال سکتے ہیں، خیبر سے لے کر کراچی تک شہباز شریف کے کارناموں کی گونج ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ شہباز شریف اقتدار کے تمام شراکت داروں کیلئے قابل قبول ہیں کیونکہ وہ اتفاق رائے کے قائل ہیں اور مشترکہ طور پر آگے بڑھنے کی بات کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں کے صفایا کی مہم