مشرقیات

ہوائی (Hawaii)بحرالکاہل کا جزیرہ ہے۔ اس کے ایک ساحلی مقام کا نام پرل ہاربر ہے۔ پرل ہاربر کو امریکہ نے ایک فوجی بندرگاہ کے طور پر ترقی دی۔ یہ بحرالکاہل میں امریکہ کا سب سے زیادہ مضبوط بحری اڈہ بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 7دسمبر 1941ء کو جاپان نے پرل ہاربر پر بمبار ہوائی جہازوں سے حملہ کیا۔ اس وقت امریکہ کے تقریباً ایک سو جنگی جہاز یہاں موجود تھے۔ جاپانی بمباری نے ان میں سے اکثر کو تباہ کر دیا۔
اس کا بدلہ امریکہ نے اس طرح لیا کہ 6اگست 1945ء کو اس نے دو ایٹم بم جاپان پر گرائے جس کے نتیجہ میں جاپان کے دو اہم ترین صنعتی شہر بالکل تباہ ہو گئے۔ تاہم یہ دونوں شہر (ہیروشیما اور ناگاساگی) اب دوبارہ زیادہ شاندار طور پر تعمیر کر لیے گئے ہیں۔ 1945ء میں وہ جاپان کی بربادی کی علامت تھے۔ 1985ء میں جاپان کی غیر معمولی ترقی کے علامت تھے۔
دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ جاپان کی مکمل شکست پر ہوا تھا۔ مزید یہ کہ امریکہ نے اس کے اوپر اپنی فوجی اور سیاسی بالادستی قائم کر لی۔ مگر جاپان نے حیرت انگیز طور پر اس کا ثبوت دیا کہ وہ اپنے آپ کو حالات کے مطابق بدل لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے پہلے وہ ہتھیاروں پر یقین رکھتا تھا مگر جنگ کے بعد اس نے خود اپنی مرضی سے ہتھیار الگ رکھ دیے اور خالص پرامن انداز میں اپنی نئی تعمیر شروع کر دی۔ جاپان نے لڑائی کے میدان کو چھوڑ دیا جو اس کے لیے بند ہو گیا تھا۔ اس نے تعمیر کے میدان کو اختیار کر لیا جو اب بھی اس کے لیے کھلا ہوا ہے۔
دوسری تدبیر پہلی تدبیر سے زیادہ کامیاب ہوئی ۔ جاپان صنعت و تجارت میں اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ آج وہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت سمجھا جاتا ہے ، امریکہ کے مقابلہ میں اس کا ٹریڈ سرپلس 37بلین ڈالر کے بقدر زیادہ ہے۔ جنگ کے فاتح امریکہ کو مفتوح جاپان نے اقتصادیات کے میدان میں شکست دے دی۔
اس صورتِ حال سے امریکہ کے لوگ بے حد پریشان ہیں۔ وہ جاپان کے موجودہ حملہ کو اقتصادی پرل ہاربر (Economic Pearl Harbour)کا نام دیتے ہیں۔ امریکہ میں ایک کتاب چھپی ہے جو اس وقت امریکہ اور جاپان میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب بن گئی ہے۔ اس کتاب کانام ہے : جاپان نمبر ایک (Japan Number One)
اس کتاب میں دکھایا گیا ہے کہ جاپان اور امریکہ کے درمیان تجارت میں جاپان بہت زیادہ آگے بڑھ گیا ہے اور وہ عنقریب برطانیہ سے بھی آگے بڑھ جانے والا ہے۔ بیرونی اثاثہ کے اعتبار سے جاپان آج دنیا کی سب سے زیادہ دولت مند قوم ہے۔ اس کا بیرونی اثاثہ 1984ء کے آخر میں 74بلین ڈالر تھا۔ (ٹائمز آف انڈیا، 13-14جون 1985ء )
جاپان نے اپنی فوجی شکست کو اقتصادی فتح میں کس طرح تبدیل کیا ۔ جواب یہ ہے کہ اس کا راز یہ تھا کہ جاپان نے از سر نو وہاں سے اپنا سفر شروع کیا جہاں حالات نے اس کو پہنچا دیا تھا۔
اس نے اشتعال کے بجائے صبر کا طریقہ اختیار کیا۔ اس نے ٹکرائو کے میدان سے ہٹ کر امن کے میدان میں اپنی قوتوں کا استعمال کیا۔ جو امکان برباد ہو گیا تھا، وہ اس کا فریادی نہیں بنا ، بلکہ جو امکان باقی رہ گیا تھا اس نے ساری توجہ اس پر لگا دی۔
خلاصہ یہ کہ جاپان نے دوسروں کو الزام دینے کے بجائے اپنے آپ کو الزام دیا اور اس کے فوراً بعد اس کی نئی تاریخ بننا شروع ہو گئی جو اس وقت تک نہ رکی جب تک وہ تکمیل کی حد کو نہ پہنچ گئی۔
آپ اس دنیا میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ یہاں دوسرے بہت سے لوگ بھی ہیں اور وہ سب بڑھنے اور غالب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورتِ حال کے مقابلہ میں آپ کا طریقہ دو قسم کا ہو سکتا ہے ۔ ایک یہ کہ جہاں کوئی دوسرا آپ کو اپنی راہ میں حائل نظر آئے وہاں آپ اس سے لڑنا شروع کر دیں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ٹکرائو سے بچ کر اپنی مثبت تعمیر کرنے کی کوشش کریں۔
تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں صرف دوسرا طریقہ کامیاب طریقہ ہے۔ اس کے برعکس پہلا طریقہ صرف بربادی کا طریقہ ہے ۔ سمندری جہاز کو اگر چلتے ہوئے راستہ میں چٹان مل جائے تو وہ اس سے کترا کر نکل جاتا ہے اور جو اس سے لڑ کر جانا چاہے تو وہ ٹوٹ کر ختم ہو جاتا ہے ۔ ایسے جہاز کے لیے منزل پر پہنچنا مقدر نہیں۔ (رازِ حیات)

مزید پڑھیں:  کالے رنگ کے چند حوالے