افغان شہریوں کو تحفظ فراہمی کا اعادہ

افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھالنے والے طالبان قیادت کے اہم رہنما سراج الدین حقانی نے طویل عرصہ کے بعد منظرِ عام پر آتے ہی افغانستان سے باہر جانے والے شہریوں کیلئے عام معافی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ دہائیوں پر مشتمل ان کی جدوجہد اسلامی نظام کے قیام کے لیے تھی۔ افغانستان سے جانے والے شہریوں کو واپس آنے پر انہیں مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دیتے ہوئے سراج الدین حقانی کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکار شہریوں کے ساتھ نرم رویہ سے پیش آئیں ۔
غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان حکومت کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے، اندرونی سطح پر امن وامان کی بحالی کے لیے طالبان قیادت کوشاں ہے تاکہ افغان شہریوں کا اعتماد حاصل کیا جائے، طالبان قیادت نے گزشتہ چند ماہ کے طرزعمل سے ثابت کر دیا ہے کہ ماضی کے تلخ رویے کے برعکس اس بار طالبان کے رویے دوسانہ ہیں اور وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتے ہیں جو جبر و اکراہ کے زمرے میں آتا ہو۔ طالبان کا یہ چہرہ نہ صرف افغان عوام بلکہ اقوام عالم کو قابل قبول ہے، چین، روس اور دیگر کئی ممالک میں اس کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے، طالبان کے رویے میں آنے والی اس تبدیلی کی تحسین کی جانی چاہیے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے طالبان قیادت جان چکی ہے کہ آگے بڑھنے کا یہی واحد راستہ ہے کہ تلخ رویوں کو ترک کر دیا جائے۔ طالبان کے رویوں میں دکھائی دینے والی مثبت تبدیلی کا تقاضا ہے کہ اقوام عالم بھی اپنے رویوں میں لچک کا مظاہرہ کریں اور افغانستان پر بلاوجہ کی پابندیوں کی بجائے عوام کی مشکلات کو مدِنظر رکھ کر فنڈز کا اجراء کریں۔
خواجہ سرائوں کو تحفظ فراہم کیا جائے
خواجہ سرائوں پر تشدد اور اُن کے ساتھ بیہمانہ سلوک ہمارے مجموعی سماجی رویوں کی عکاسی کرتا ہے کہ سماج میں خواجہ سرائوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا کے خواجہ سرا آئے روز تشدد کا شکار بنتے ہیں، گزشتہ روز پشاور کے علاقے شاہ پور میں پروگرام کے بہانے بلا کر دو خواجہ سرائوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، پولیس نے تشدد کرنے والوں کو گرفتار کر لیا ہے، یہ اچھی بات ہے مگر اس مسئلے کا مستقل حل نکالنے کی ضرورت ہے، ان عوامل کو جاننے کی ضرورت ہے جو خواجہ سرائوں پر تشدد کا باعث بنتے ہیں۔ سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ صنفی امتیاز، گھر سے باہر نکالا جانا، سماج میں دوسرے درجے کے شہری تصور کیا جانا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خواجہ سرائوںکا تنہا ہونا ، شرپسند عناصر کو خواجہ سرائوں پر تشدد کرنے پر ابھارتا ہے کیونکہ شرپسند بخوبی جانتے ہیں کہ خواجہ سرائوں پر تشدد کرنے کے بعد ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو گی۔ ایسی صورتحال کا تقاضا ہے کہ ریاستی سطح پر خواجہ سرائوں کو تحفظ فراہم کرنے کا لائحہ عمل تیار کیا جائے، فوری طور پر جو کام ہو سکتا ہے وہ یہ کہ تشدد میںملوث ملزمان کے خلاف ٹھوس کیس بنائے جائیں، پولیس وقتی طور پر گرفتار کرتی ہے اور دو چار دنوں میں انہیں رہا کر دیتی ہے ، یوں شرپسند عناصر نے اپنے تئیں سمجھ لیا ہے کہ خواجہ سرائوں پر تشدد پر انہیںکسی قسم کی سزا نہیں ہو سکتی ہے۔ دوسرے مرحلے میں پارلیمنٹ کے ذریعے خواجہ سرائوں پر تشدد کی سزائوںکو سخت کیا جائے تاکہ کسی کو خواجہ سرائوں پر تشدد کی جرأت نہ ہو۔
بارشوں کی پیش گوئی، بروقت اقدامات کی ضرورت
خیبرپختونخوا کے 21 اضلاع بشمول پشاور میں طوفانی بارش اور ژالہ باری کا سلسلہ شروع ہونے کا الرٹ جاری کردیا گیا ہے، اس حوالے سے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ کو ایک مراسلہ بھی جاری کیا ہے جس کے مطابق انہیں اس حوالے سے اپنے انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی جانب سے بروقت الرٹ جاری کرنا احسن اقدام ہے اور اب یہ متعلقہ اضلاع کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس الرٹ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اپنے اپنے علاقوں میں بارش اور لینڈنگ سلائیڈنگ کے حوالے سے فول پروف انتظامات کریں تاکہ بارش اور لینڈ سلائیڈنگ سے کم سے کم نقصانات ہوں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ خیبرپختونخوا میں شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے حوالے سے کوئی الرٹ جاری کیا گیا ہے اس سے قبل بھی ایسے الرٹ جاری ہوئے بارشیں بھی ہوئیں جن کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوئی اور صوبے کے غریب عوام کا جانی و مالی نقصان ہوا اس کی وجہ صرف اور صرف یہ دیکھنے میں آئی کہ متعلقہ حکام نے جاری کئے گئے الرٹ کے مطابق اپنی تیاریاں نہیں کی تھیں، پہاڑی علاقوں میں جہاں زیادہ نقصانات کا اندیشہ تھا لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل نہیں کیا گیا جس کے باعث ایک جانب جانی نقصان ہوا اور دوسری جانب ان غریب لوگوں کے مالی مویشی بھی اس لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آکر ہلاک ہو گئے جس سے ان کے ذریعہ معاش کو بھی شدید گزند پہنچی، امید کی جاتی ہے کہ اس مرتبہ تمام اضلاع کی انتظامیہ اپنے طور پر بہترین انتظامات کرتے ہوئے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرے گی، یہاں ایک بات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑی علاقوں کے ساتھ ساتھ پشاور جیسے گنجان آباد شہر میں بھی فول پروف انتظامات کی ضرورت ہے، یہاں پر بھی ایسے کئی علاقے ہیں جہاں پر اب بھی کچے گھر موجود ہیں جن کی چھتیں مٹی سے بنی ہوئی ہیں ایسے علاقوں میں فوری طور پر انتظامات کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی بڑے نقصان سے بچا جا سکے، الرٹ کے باوجود نقصان دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے بروقت حفاظتی انتظامات نہیں کئے گئے تھے، امید کی جاتی ہے کہ تمام اضلاع بشمول پشاور کی انتظامیہ اس الرٹ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے فول پروف انتظامات کرکے عوام کو تحفظ فراہم کرے گی۔

مزید پڑھیں:  پاک روس تعلقات