اب کہاں وہ دور ‘ تھی جب قصہ خوانی رقص میں

اہل پشاور کو اطمینان کا سانس لئے ابھی مدت ہی کتنی گزری تھی کہ دہشت گردوں نے اسے پھر خون میں نہلا دیا ‘ چند برس پہلے جب قصہ خوانی بازار میں ایک سانحہ رونما ہوا تھا تو راقم نے ایک نظم ”سانحہ پشاور” کے عنوان سے رقم کرکے شہر کا نوحہ لکھا تھا ‘ تب دہشت گردی کی جو صورتحال تھی اس نظم میں ان حالات کی جھلکیاں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہیں جو کچھ یوں تھا کہ
ابھی میں زیست کی خوشیاں منا سکتا نہیں ہمدم
ابھی ان بے کفن لاشوں کو دفنایا نہیں میں نے
جومیرے شہر کی دہلیز پر
سفاک قاتل
روز دھر دیتے ہیں
اور اس بے امانی کی فضا میں
سانس لینے پر ہمیں مجبور کرتے ہیں
کرائے کے یہ قاتل
نوجوانوں کوبشارت دے کے جنت کی
جو دہشت گرد حملوں کے لئے آمادہ کرتے ہیں
تو نسل نو کے ذہنوں میں
یہ باتیں کیوں نہیں آتیں
اور ان سے پوچھ لیں اتنا
کہ جنت گر کسی خود کش دھماکے سے ہی ملتی ہے
تو یہ سفاک قاتل
کیوں نہ خود جنت کو پانے کے لئے
قربان ہوتے ہیں؟
ان دنوں ہر دوسرے تیسرے روز نہ صرف خود کش دھماکے ہوتے تھے ‘ بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ‘ قتل و غارت گری کا ایک بازار گرم تھا جو خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں گرم رکھا گیا تھا ‘ صرف یہی نہیں بلکہ قبائلی اضلاع میں بھی قانون کے محافظوں پر حملے کرکے ا نہیں جانی نقصان پہنچانے میں دہشت گرد کسی کی پراکسی جنگ لڑ رہے تھے ‘ اس صورتحال کی وجوہات کیا تھیں اور اس دہشت گردی کے پیچھے کن بیرونی قوتوں کا ہاتھ تھا ۔ بدقسمتی سے اس دور میں اس حوالے سے متعلقہ باخبر حلقے ان کی جانب ا شارہ نہیں کرتے تھے ‘ وجوہات کیا تھیں عوام اس بارے میں آج تک حقائق سے بے خبر ہیں ‘ اسی دور میں پشاور کے ایک اور اہم علاقے مینا بازار میں بھی ایک انتہائی خطرناک دہشت گرد حملہ مینا بازار کے سنگ چڑویکوبان کے علاقے میں ایک موٹر کارکے اندر بھاری مقدار میں آتشیں مواد رکھ کر کیاگیا ‘ جس نے ایک بار پھر شہر کو تباہی سے دو چار کیا ‘ اس سانحے نے بھی پشاور کو ایک عرصے تک غم و اندوہ کی تصویر بنائے رکھا ‘ اس موقع پر بھی راقم نے اس خونیں حادثے سے متاثر ہو کر”سانحہ چڑویکوبان کا ردعمل” کے نام سے ایک نوحہ رقم کیا
مرے پشاور!
تمہارے ماتھے پہ خون کی یہ لکیر کیسی ہے؟
کون ہیں جو تمہارے چہرے پہ
قتل و غارت گری کے انمٹ سیاہ دھبے
لگا رہے ہیں؟
تمہارے آنگن میں اگنے والے گلاب
اب کیوں نہیں مہکتے؟
چمکتی صبحوں ‘ مہکتی شاموں کی سرزمیں ‘ میں
یہ خوف کیسا؟
یہ بم بکف اور کتاب دشمن
نقاب چہروں پہ ڈال کر
کیوں تمہارے بچوں کی خواب نگری
اجاڑنے پر تلے ہوئے ہیں؟
یہ کون ہیں جو تمہاری عظمت کو
خاک میں یوں ملا رہے ہیں؟
وہ خوشبوئیں اب کہاں ملیں گی
جو تیری بوباس میں رچی تھیں؟
وہ ا من کیسے بحال ہو گا
جو تیرے ماحول میں رچا تھا؟
وہ پیار اب کہاں ملے گا
جوتیری تہذیب میں بسا تھا؟
مرے پشاور!
خدا تجھے گلاب و سروسمن کا مسکن
بناکے امن و سکوں سے بھردے
مرے پشاور!
مرے پشاور!
کوچہ رسالدار(قصہ خوانی) کا تازہ سانحہ اہل پشاور کے لئے لمحہ فکریہ ہے ‘ اللہ پشاور کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ‘ آمین
پیالیاں قہوے کی ‘ گپ شپ ‘ قہقہوں کا زیر وبم
اب کہاں وہ دور ‘ تھی جب قصہ خوانی رقص میں

مزید پڑھیں:  '' پاکستان اور افغانستان ''حاصل مطالعہ