اقوام متحدہ کی پھرتیاں اور مسلم دنیا کے زخم

یورپی ملک یوکرائن پر روسی یلغار کے بعد مغربی عوام کی آہ وبکا کو فوری سنتے ہوئے اقوام متحدہ نے جس طرح پھرتیاں دکھانا شروع کی ہیں اس سے دنیا کے ایک بڑے طبقے کے زخم ہرے ہوگئے ہیں ۔مسلمان دنیا کے بے شمار مظلوموں کو وہ دن یاد آرہے ہیں جب اسی طرح غاصب اور جارح فوجیں انہیں جمہوریت ،تہذیب اور امن سکھانے اور دینے کی خاطر ان کے سرحدوں کو ٹینکوں سے روندتے ہوئے داخل ہوتے تھے اور اس راہ میں کھڑے ہونے والوں کو دہشت گرد قرار دے کر ٹینکوں تلے کچل ڈالتے تھے ۔ٹینکوں کے اوپر خطرناک ہتھیاروں سے لدے جہاز سایہ فگن ہوتے تھے ۔جو کسر زمین پر باقی رہ جاتی تھی وہ فضا سے مار کر پوری کی جاتی تھی ۔کہا جاتا تھا کہ ہم اس ملک کو مہذب بنارہے ہیں اسے جمہوریت سکھا رہے ہیں ۔گھر بربادہوتے تھے ۔بچوں کی لاشیں گرد میں اٹی ملتی تھیں اور ماتمی بین چہار سو بلند ہوتے تھے مگر اقوام متحدہ جارح کے ہاتھ مضبوط کرتی تھی اور جارحیت کو اپنی قراردادوں کا سہار اور بیساکھی فراہم کرتی تھی ۔پہلے سے محصور عوام پر پابندیوں کے فیصلے کرتی تھی ۔اقوام متحدہ میں کوئی ان مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرتا تھا تو اسے سنی ان سنی کر دیا جاتا تھا اور نہ کوئی اجلاس ہوتا تھا نہ ہی کوئی قرار داد منظور ہوتی تھی۔اس طرح موت کا کاروبار چلتا رہتا تھا ۔اب یوکرائن پر روس چڑھ دوڑاتو یورپ اور امریکہ کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے ۔وہ روس کی طاقت سے خوف زدہ ہیں اور اسی لئے اپنے فوجیوں کو یوکرائن کی مدد کے لئے بھیجنے سے گریزاں ہیں مگر وہ دنیا بھر میں یوکرائنی عوام کی مظلومیت اور ملکوں کے اقتدار اعلیٰ کی دُہائیاں دے رہے ہیں ۔اقتدار اعلیٰ کی یہ چڑیا عراق ،افغانستان ،شام اور لیبیا میں کہیں دکھائی نہیں دی تھی جہاں کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی مگر ظالم کا ہاتھ روکنے کے لئے اقوام متحدہ کے پاس اجلاس منعقد کرنے کی فرصت ہی نہیں تھی ۔کشمیر اور فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر توجہ دینے کی کبھی ضرورت محسوس کی گئی نہ ان پر ظالموں کی سرزنش کی گئی ۔مسلمان دنیا کے لئے تباہ حال گھر اور ملبوں میں ڈھلی عمارتیں ،خون آلود چہرے اور بے گوروکفن لاشے کوئی نئی بات نہیں کیونکہ وہ دہائیوں سے ان مناظر کے خوگر ہو چکے ہیں اور اب ان کے لئے یہ معمول کی بات کی ہے ۔ان کے دل خون
کے آنسو رو چکے ہیں یہاں تک کہ ان کے آنسو خشک ہوچکے ہیں اسی لئے یوکرائن پر روسی حملہ ہوا اور اس پر مغرب کا واویلا شروع ہوا تو مسلمان دنیا کے زخم ہرے ہوگئے ۔یوکرائن میں ۔دوسری طرف اقوام متحدہ کی پھرتیاں یہ ہیں کہ یوکرائن میں بمباری کے مناظر کے بعد انہیں شام ،عراق افغانستان کشمیر وفلسطین کی بربادی کے مناظرنظروں میں گھومنے لگے ۔جس پر صرف یہی مصرعہ صادق آتا ہے کہ ” یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا”۔ بھارت نے پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کی تو یہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی نفی تھی ۔پاکستان دہائیاں دیتا رہا ۔چین نے سلامتی کونسل کے دو اجلاس منعقد کئے مگر مغربی ملکوں نے ان اجلاسوں کو بے نتیجہ کر دیا ۔چین مدعی تھا اور روس نے دبے انداز میں اس کی حمایت کی باقی سب ممالک بھارت
کے ہمنوا نظر آئے اور یوں اقوام متحدہ بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئی ۔اب امریکہ نے یوکرائن کی صورت حال پرسلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر روس کی مذمت میں قرار داد منظور کرانے کی کوشش کی گئی روس نے اسے ویٹو کیا تو دور وز میں جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کر لیا ۔جس میں ایک سو اکتالیس ارکان نے رو س کی مذمت کی جبکہ پینتیس ارکان غیر حاضر رہے اور پانچ نے اس قرارداد کی مخالفت کی ۔اس سے پہلے اسلام آباد میں یورپی ممالک کے سفیروں نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ جنرل اسمبلی میں روس کی مذمت میں پیش کی جانے والی قرارداد کی حمایت کرے۔یورپی یونین کے سفیروںنے یہ مطالبہ کس منہ سے کیا تھا ؟کشمیر پر بے رحم اور سنگ دل تماشائی کا کردار ادا کرنے والا مغرب پاکستان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ یوکرائن کے غم میں ہلکان ہو جائے کیونکہ وہاں سنہری بالوں اور نیلی آنکھوں والے مظلوم ہیں ۔کشمیر میں مظلوموں کا تعلق انسانوں کی اس برتر قبیل سے نہیں تھا اس لئے ان کی موت اور بربادی پر مغرب تماشا دیکھتا رہا ۔یوکرائن کے غم میں ٹسوے بہانے والے نیٹو اور امریکہ نے لیبیا میں ایک لاکھ پنتالیس ہزار،افغانستان میں ایک لاکھ پنسٹھ ہزار ،شام میں دولاکھ چوبیس ہزار ،عراق میں بارہ لاکھ لوگوں کو ماردیا مگر اقوام متحدہ معاون اور سرپرست ادارہ بنا رہا جبکہ یوکرائن میں دوسوافراد کے قتل ہوتے ہی پہلے سلامتی کونسل اور پھر جنرل اسمبلی کے اجلاس ہوئے یہ حالات اس کے مقابلے میں کچھ نہیں جن سے مسلمان ممالک گزشتہ دودہائیوں سے گزرتے رہے ہیں۔اب روس اگر یہ دعویٰ کررہا کہ وہ یوکرائن میں پیس کیپنگ مشن پر ہے اور سویلینز کو بچانے کے لئے کارروائی کر رہا ہے تو اس میں کیا عجب ہے؟امریکہ اور نیٹو تو یہی کرکے دنیا کو تاخت وتاراج کرتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  میزانیہ نہیں سیلاب بلا