پھولوں یا دھماکوں کا شہر

پھولوں یا دھماکوں کا شہر

میرے والد صاحب کی جنم بھومی پشاور ہے یوں اس شہر سے محبت ہمارے خون کی ہر بوند میں بسی ہے اسی طرح ہمارے دل بھی اس شہر کے پھولوں کی خوشبو سے بھی محسور ہوچکے ہیں میرے والد صاحب ساٹھ کی دھائی میں تربیلہ ڈیم بننا شروع ہوا توپشاور کو چھوڑ کرتربیلہ پر مزدوری کے سلسلہ میں گئے تو وہیں کے ہو کر رہ گئے اور ایک گھر وہیں پر بناکر برسہا برس وہیں پر مقیم رہے ستر کی دھائی میںوہ سعودی عرب چلے گئے اور پھر اسی کی دھائی کے آخر میں واپس پشاور آنے کی بجائے تربیلہ والے گھر میں رہنے کو ترجیح دی تاہم گاہے بگاہے پشاور آتے رہتے اور ہر سال پشاورگل دائودی کی نمائش دیکھنے ضرور آتے ۔ یہ نمائش شہر کے کسی ادارے میں ہورہی ہویا کسی پارک ،ان میں خالد بن ولید پارک میں ہو یا پھر اسلامیہ کالج کے سبزہ زار میں ہورہی ہو وہ اس میں شرکت کے لئے ضرور آتے تھے۔ ہمارے تربیلہ والے دس مرلے کے گھرمیں آدھا حصہ پھولوں کی کیاریوں کے لئے مخصوص ہے اور ہر بار پشاور شہر کا چکر لگنے کے بعد ایک نئے پھول کے پودے کا اضافہ ہوتا ہی رہتا تھا۔ ان میں گلاب کے پھولوں کے پودے بھی تھے اور موسمی پھولوں جن میں گل دائودی بھی شامل ہے کے پودے بھی تھے یوں والد صاحب موسم گزرجانے پر ان کے بیج سنبھال کر رکھ لیتے اور پھر اگلے سال دوبارہ انہیں اگالیتے تھے۔ یہ بیچ دوستوںکو تحفت کے طورپر بھی دیتے اور یوں ہمارے محلہ سے سکولوں ودیگر اداروں کو بھی یہ بیج دیئے جاتے رہے تو پھر پشاور کی خوشبو تربیلہ کی اپنی خوشبوئوں کے ساتھ اسی کی خوبصورتی کو چارچاند لگاتے رہے ہیں۔
پشاور میں ہمارے رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد بھی ایک وجہ تھی تربیلہ سے باربار یہاں آنے کی لیکن اس سے بڑی وجہ پھولوں کی مہک ہمیں یہاں کھینچ ہی لاتی ہے لیکن پھر ایسی نظر لگی اس پھولوں کے شہر کو کہ ہرسال ہر ماہ ہر محلے ہرگلی ہر ادارے میں دھماکے ہوتے رہے یوں پھولوں کی مہک کہیں گم سی ہوگئی اور صرف بارود کی بو رہ گئی ہے اب ہمارے نئی پود کو تو یہی بو پشاورکی بو لگتی ہے جبکہ یہاں کے گلابوں اور گل دائودی کی خوشبو سے تو ان کی روح بالکل ہی ناواقف ہوگئی ہے۔ اسی کی دھائی میںجب پاکستان روس کی جارحیت کے خلاف بر سرپیکار تھاتب بھی پشاور دھماکوں سے گونج اٹھتارہا اور صوبائی دارلحکومت کے تمام کے تمام ہسپتال ان دھماکوں کے زخمیوں کے سنبھالنے سے قاصر تھے ہر دل میں دھماکے کے رکنے کی دعائیوں کے ساتھ ساتھ یہ دعائیں بھی کرتا رہا ہے کاش ہمارے وطن میں ایسے ہسپتال ہوں کہ جو اس طرح کی غیر معمولی حالات کو بھی سنبھال سکیں اور ان دھائیوں میںوقت گزرنے کے ساتھ ہماری مختلف حکومتوں نے آہستہ آہستہ کم از کم پشاور کے ان ہسپتالوں کی حالت اچھی کرلی اب خدانخواستہ سینکڑوں کے حساب سے بھی دھماکہ کے شکار لوگ ہسپتال پہنچ جائیں انہیں نہ صرف فوری طبی امداد دینے کا پورا پورا انتظام موجود ہے بلکہ انہیں مکمل صحت مند ہونے تک ہسپتال میں جتنے دن چاہے رکھا بھی جاسکتا ہے اور انہیں اعلیٰ معیار کی طبی سہولیات میسر ہیں۔
روس کے خلاف جہاد اور جنگ لڑتے لڑتے جہاں پورے وطن کے نوجوانوں کے جام شہادت نوش کیا وہاں پشاور کی ہر گلی ہر کوچہ بلکہ ہر سکول و مسجد کے طلباء نے اپنے خون کے نذرانے پیش کئے ۔ بڑی طاقتوں کی جنگ میںپشاور تباہ وبرباد ہوا گھر گھر سے جنازے نکلے اور تو اور نوجوانوں کے ساتھ ساتھ سکول کے بچوں کے جنازے اٹھانے کا درد ابھی تک بھولا نہیں ۔ آج تین دھائیوں کے گزرنے کے بعد ہماری حکومت روس کے ساتھ تعلقات استوار کررہی ہے لیکن جب روس کو دشمن ملک مانا جاتارہا تب بھی پشاور آگ وبارود کی زد میں رہا اور اب جب کہ دشمنی کی برف پگلنے لگی ہے روس دشمن کی بجائے دوست بننے جارہاہے تب بھی میرے پھولوں کے شہر کی قسمت میں بارود کی بو ہے۔میرا کام ناامیدی پھیلانا ہرگز نہیں تاہم کل کے دھماکے نے میرے سارے زخم ہرے کردیئے دکھ کی اس گھڑی میں میری درخواست ہے کہ ہمیں ذات برادری اور فرقوں میں بٹنے کی بجائے یکجاہوکر اپنے پیارے پھولوں کے شہر پشاور کو پھر سے پھولوں کی مہک سے معطر کرنا ہے امن و امان قائم رکھ کر ہی ایسا ممکن ہے۔ اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں کے صفایا کی مہم