وزیراعظم کا دھواں دھار خطاب

وزیر اعظم عمران خان نے جلسہ عام سے خطاب میں خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی کھل کراظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ یورپی یونین کے سفیر نے خط لکھا کہ آپ روس کے خلاف بیان اور ووٹ دیں، میں یورپی یونین کے سفیر سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ نے ہندوستان کو بھی یہ خط لکھا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ میں اپنی قوم کو یاد کرانا چاہتا ہوں کہ یہ وہ پاکستان تھا جس نے نیٹو کی مدد کی، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کا ساتھ دیا، میں کبھی ایسی جنگ میں ساتھ نہ دیتا لیکن اس وقت کے سربراہ نے ان کا ساتھ دیا تاہم اس کا پاکستان کو کیا صلہ ملا۔انہوں نے کہا کہ جب کشمیر میں بھارت نے عالمی قانون توڑا’ جب اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہاں کا خصوصی درجہ ختم کیا تھا تو کیا آپ میں سے کسی نے ہندوستان سے رابطہ توڑا تھا’ کیا ان پر تنقید کی’تجارت بند کی’ تو ہم آپ کے سامنے کیا ہیں’ کیا ہم غلام ہیں’ کہ جو آپ کہیں گے ہم کر لیں؟۔ان کا کہنا تھا کہ ہم کسی سے دشمنی نہیں چاہتے، ہم سب سے دوستی چاہتے ہیں، ہماری روس سے بھی دوستی ہے’ امریکا سے بھی دوستی ہے، چین سے بھی دوستی ہے اور یورپ سے بھی ہے’ ہم کسی کیمپ میں نہیں ہیں’ہم نیوٹرل ہیں اور ان ملکوں کے ساتھ مل کر کوشش کریں گے کہ یوکرائن میں جاری جنگ بند ہو۔انہوں نے کہا کہ ہم جنگ میں کسی کا ساتھ نہیں دیں گے لیکن امن میں سب کا ساتھ دیں گے۔دریں ا ثناء امریکا کے ایک سینئر قانون ساز نے بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر وہ چاہتا ہے کہ اسے عالمی منظر نامے پر سنجیدگی سے لیا جائے تو روس کی مذمت کرے۔واضح رہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ ہنگامی اجلاس میں141ممالک نے روس کی مذمت اور یوکرائن سے فوجوں کے فوری انخلا کے مطالبے پر مشتمل قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔تاہم پاکستان’ بھارت اور بنگلہ دیش سمیت 35ممالک نے ووٹ دینے سے گریز کیا تھا اور روس سمیت 5اراکین نے اس قرار داد کے خلاف ووٹ دیا۔پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی کے حوالے سے موجودہ دور حکومت میں جودعوے کئے جاتے رہے ۔وزیر اعظم عمران خان کے جذباتی خطاب کے بعد اس حوالے سے سوالات کا اٹھنا فطری امر ہے ۔یوکرائن پر روسی حملے کی مذمت کے لئے صرف پاکستان ہی پر نہیں بلکہ بھارت پر بھی دبائو ڈالا جارہا ہے ایک سینئر امریکی قانون ساز نے بھارت زور دیا ہے کہ وہ روس کی مذمت کریں۔ سفارتی دنیا میں لابنگ معمول کی بات ہے اور بعض عالمی اہمیت کے حامل مسائل و معمولات میں اس طرح کی غیر معمولی طریقہ کار بھی اختیار کرنا پڑتا ہے جو کوئی انوکھی بات نہیں اور نہ ہی اسے کسی ملک پر براہ راست دبائو ڈالنے پرمحمول کیا جانا چاہئے بہرحال دنیا کے تیسرے ممالک کو مختلف قسم کے دبائو اور مسائل کا سامنا رہتا ہے اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جس میں ایک وجہ ان ممالک کے مفادات اور دیگر ایسے عوامل ہیں جن کے بارے میں بڑے ممالک سے واسطہ رہتا ہے جہاں تک امریکا او رمغربی ممالک کے پاکستان کے حوالے سے پالیسی او ررویوں کا سوال ہے صرف پاکستان کے حوالے ہی سے نہیں بلکہ امت مسلمہ اور مسلم ممالک کے حوالے سے ان کی پالیسیاں ہمیشہ دوغلی اور مسلم دشمنی کی رہی ہیں۔ مسلم ممالک کے حوالے سے ان ممالک کی جو پالیسی رہی ہے روس ‘ یوکرائن جنگ میں ان کی پالیسی اس کا بالکل الٹ ہے جو یہ مسلم ممالک کے حوالے سے اختیار کرتے آئے ہیںجہاں تک پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا سوال ہے یا پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردارکا عدم اعتراف بلکہ الٹا پاکستان کو مطعون کرنے کی پالیسی یقینانامناسب اور تکلیف دہ امر رہا ہے لیکن بہرحال ہماری اپنی حکومتوں اور پالیسی سازوں کی غلطیوں کا خمیازہ ہم ہی کو بھگتنا تھا اس میں قصور وار صرف وہ ممالک ہی نہیں بلکہ ہمارے حکمران اور پالیسی ساز بھی ہیں جن کی اعانت کے بغیر وہ سب کچھ ممکن نہ تھا جس کا وزیر اعظم نے تذکرہ کیا ہے ۔ البتہ وزیر اعظم عمران خان کے جلسہ میں کھڑے ہو کر یورپی ممالک کو للکارنے کا جو عمل ہے عوامی نقطہ نظر سے تو یہ پرجوش خطاب مقبولیت کا باعث ہے جسے عام لوگ جرأ ت رندانہ سے تعبیر کریں گے لیکن سفارتی دنیا میں اس طرح کے خطاب کی گنجائش نہیں ہوتی یورپی یونین کے خط کے جواب میںان کو جو موقف دیا گیا یا پھر خاموشی اختیار کی گئی اور پاکستان نے اپنی مرضی کا فیصلہ کرتے ہوئے غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دی دیکھا جائے تو بس یہی کافی اور مناسب امر تھا۔ایسے میںوزیراعظم کے خطاب کو جذبات کی رو میں بہنے ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جس کی ضرورت نہ تھی اور یہ مصلحت کے بھی خلاف ہے۔ بیرونی دنیا کو ہمارے داخلی سیاست سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی ہمارے اختیار کردہ پالیسیوں سے انہیں زیادہ سروکار ہوتا ہے تازہ معاملے میں پاکستان نے جو موقف ا ختیار کیا ہے اس میں پاکستان واحد ملک نہیں بلکہ بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک کی بھی یہیں پالیسی ہے۔جہاں پر اس مسئلے کو نہ تو عوامی شکل دے دی گئی اور نہ ہی اسے دھمکی سے تعبیر کیا گیا بلکہ وہ ممالک اپنے پالیسی پرقائم رہے اور یہی مناسب امر اور حالات کا تقاضا تھا۔خارجہ پالیسی پر پاکستان میںقبل ازیں بھی سیاست ہوتی رہی ہے جو ملکی مفاد کے تقاضوں سے متصادم امر ہے اس سے گریز کیا جانا چاہئے اور کوئی ایسا جذباتی ردعمل اختیار کرنے کی بجائے سفارتی معاملات اور فیصلوں کو سفارتی طریقہ کار کے تحت نمٹانا چاہئے تاکہ خوامخواہ کے تضادات اور مشکلات کا شکار ہونے کی نوبت نہ آئے ۔

مزید پڑھیں:  ایک اور واقعہ