جغرافیائی معاشیات بمقابلہ جغرافیائی سیاسیات

معاشیات اور سیاسیات کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کہتے ہیں ایک ندی کے دو کنارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن کہیں ملتے نہیں۔ لیکن اگر آپ کسی ایک خاص مقام پر کھڑے ہو کے دور تک دیکھیں تو انتہائی فاصلے پر افق کے قریب دونوں کنارے آپ کو بغل گیر ہوتے دکھائی دیں گے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ دیکھنے والا کتنی دور تک دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دور تک دیکھنے کی صلاحیت سے دور اندیشی کی عملی صفت کا خیال آیا۔ اسی دور اندیشی کا ایک حاصل سیاسیات اور معاشیات کا باہمی موازنہ، تقابل اور انکا ایک نتیجہ خیز امتزاج ہے جسے آج کی دنیا میں سیاسی معاشیات کا نام دیا جاتا ہے۔
ہمارے لیے سیاسی معاشیات کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ قریب ستر سال بیت گئے لیکن ہمارے لیے حصول آزادی کے بعد سے کیے گئے دفاعی نوعیت کے سیاسی اتحاد تاحال نفع بخش ثابت نہ ہو پائے۔ ہماری خارجہ پالیسی کے حالیہ متعدد اشاریے ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں بتدریج دفاعی سیاسی معاہدات کی اہمیت کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ہمارے آج کے پالیسی ساز بجا طور پر سیاسی دھڑے بازیوں کو خیرباد کہتے ہوئے معاشی اغراض کی تکمیل کی طرف توجہ مبذول کیے ہوئے ہیں۔ آئیے ذرا اپنی خارجہ پالیسی کے ان نمایاں اشاریوں کا جائزہ لیتے چلیں جنہوں نے اس محاذ پر ہماری قومی کاوشوں کا رخ جغرافیائی سیاسیات سے جغرافیائی معاشیات کی طرف موڑ دیا ہے۔
یہ بات بجا ہے کہ قوت موڑ دینے کا نام ہے۔ آپ اپنے خیالات کی پختگی سے حالات کا دھارا موڑ دیں اسی کا نام قوت ہے۔ اب کے ہمارے وزیر اعظم کا دورہ چین اور پھر روس اور یوکرائن کی باہمی مناقشت کی انتہائی شدت کے موقع پر روس کا دورہ یقینا معنی خیز نتائج کے تخم سے خالی نہیں۔ بظاہر یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ ایک ایسے موقع پر جبکہ امریکہ سمیت مغربی اتحاد روسی اقدام کے خلاف سرگرم ہو ہمارے وزیر اعظم دورے کے لیے روس کا انتخاب فرمائیں۔ ایسا یقینا ممکن ہے جبکہ ہم مشرق سے مغرب کی جانب معاشی راہداری کے فروغ کے حامی ہوں جس کے ایک سرے پر چین کی ابھرتی معیشت براجمان ہے اور دوسرے سرے پر روس جیسی معدنی وسائل سے مالا مال سلطنت واقع ہے۔ ذرا سوچیے اگر روس سے قدرتی گیس کے امڈتے ذخائر زمینی ذرائع سے پاکستان جیسی ڈگمگاتی معیشت کی راہ پائیں تو ہم چشم زدن میں زمین سے آسمان کی طرف نکل جائیں۔ بقول شاعر:
تم ایک بار جو دل کی زمین چھو لیتی
تو پھر اگلا قدم میں آسمان پر رکھتا
احباب! بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ذرا مشرق سے مغرب کی جانب معاشی راہداری کے چینی اور روسی سِروں کے درمیان واقع زمینی حقائق پر بھی توجہ فرمائیں۔ یہاں وسط ایشیائی ریاستوں کا تسلط ہے جہاں کیسپئین کا علاقہ معدنی ذخائر کا ایک بڑا مرکز ہے۔ مغربی ایشیائی اطراف میں افغانستان اور ایران واقع ہیں۔ اس بڑے ارضی اجتماع کے بیچوں بیچ جنوبی ایشیا کا علاقہ ہے جہاں وسائل ، عزم اور حوصلے کے ہوتے ہوئے بھی ترقی کا عمل مفقود ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد تاریخی عمل کا مہیا کردہ یہ غالبا پہلا موقع ہے کہ پاکستان اس علاقے کے بیچوں بیچ واقع چند بڑی طاقتوں کے مابین معاشی اتصال کا ذریعہ بنتا دکھائی دیتا ہے۔
ہمارے لیے تگ و دو کا کارزار گرم ہے۔ ہمیں اب اتنی فرصت کہاں کہ سیاسی بکھیڑوں میں سر کھپاتے پھریں۔ ہمارے پالیسی سازوں کا حوصلہ ملاحظہ فرمائیں کہ اگرچہ امریکی سرکردگی میں مغربی اتحاد نے سرتوڑ کوشش کی کہ کسی طرح ہم سے یوکرائن میں روسی پیش قدمی کی مذمت ہی کروا پائیں۔ لیکن یہاں بھی انہیں منہ کی ہی کھانی پڑی۔ لیکن جناب!معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے امن درکار ہوتا ہے۔ یہ کیسا طرفہ تماشہ ہے کہ ہم معیشت کے فروغ کے لیے سرگرداں بھی ہوں اور پھر ایک ملک کے دوسرے کے خلاف جارحیت کے خلاف آواز بھی نہ اٹھائیں؟ ہم بجا طور پر روس اور یوکرائن کے درمیان جنگ بندی کے حامی ہیں۔ ہم مذاکراتی عمل کے جاری رہنے کے بھی خواہاں ہیں۔ ہمیں بھلا کیا عار ہے کہ ہم یوکرائن جیسے ملک کے خلاف روسی جارحیت کی مذمت ہی کر پائیں بشرطیکہ مغربی ممالک کشمیری مسلمانوں کے خلاف بھارتی جارحیت کی پرزور مذمت کا عندیہ دے پائیں۔ مفاد تو پھر مفاد ہی ہوتا ہے۔ کیوں نہ ہم بھارت کی نسبت مغربی مفاد کو روس اور چین جیسے ممالک کی نسبت اپنے مفاد سے توازن دلوانے کی سعی کریں۔ بین الاقوامی تعلقات میں سرد مفادات ہی اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اس مرکزی تنظیم بندی اور توازن سے عاری عالمی نظام کی خصوصیت ملاحظہ فرمایئے کہ ہم نے ہر جا و بیجا امریکی حلیف بننے کی صعوبتیں اٹھائیں۔ ہرچند کہ مناقشت اور افتراق کی قوتوں نے دہشت گردی کو جنم دیا۔ لیکن ہم نتائج سے بے خبر ہی تھے جو دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں بھی کود پڑے۔ الغرض امریکہ سے ہماری مجبوریوں کی ماری تھکی ماندی محبت کی داستان کہیں طویل ہے۔ اس محبت کی راہ میں اتنے اپنائیت کے پھول نہیں کھلے جتنے شکوک و شبہات کے کانٹے اگے ہیں۔ نتیجہ کار ہم اب صرف اپنی معاشی تعمیروترقی کے خواہاں ہیں۔ امریکی سرکردگی میں مغربی اتحاد سے ہمارا شکوہ بجا ہے۔
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
تم نے تو خیر بے وفائی کی

مزید پڑھیں:  پاک روس تعلقات