ایک اور الرٹ

جاری الرٹ کے مطابق افغانستان کے صوبہ کنڑ سے سابق تحریک طالبان کے 20 سے زائد دہشت گرد اور خود کش بمبار پاکستان میں داخل ہونے اور پبلک مقامات پر تخریب کاری کرنے کا خدشہ ہے جس پر ملک کے دیگر صوبوں میں بھی سکیورٹی انتظامات سخت کر دیئے گئے ہیں۔ اس لئے اس تناظر میں خیبر پختونخوا میں آئندہ دو ہفتے حساس ہوں گے اور اس سے نمٹنے کے لئے سکیورٹی پلان سخت اور نگرانی کا عمل تیز کیا جائے گا۔ یہ الرٹ خفیہ اداروں کی جانب سے ٹریس کی گئی ٹیلی فون کالز کے تناظر میں جاری کیا گیا ہے۔خیبر پختونخوا کے پایہ تحت پشاور میں گزشتہ روز کے دھماکے کے بعد سکیورٹی کی صورتحال میں کوئی اضافہ نظرنہیں آتا اور نہ ہی معمول کی پولیس گشت میں اضافہ نظر آتا ہے ایسے میں اس اطلاع سے عدم تحفظ کا احساس اور پریشانیوں میں اضافہ فطری امر ہوگا۔افغانستان سے دہشت گردوں کے ایک بڑے ٹولے کی آمد کی پیشگی اطلاع کی افادیت اسی وقت ہو گی جب بہتراور بروقت اقدامات کے ساتھ ان کے خلاف موثر کارروائی ہو گی اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنایا جائے گا۔کم ہی ایسا سامنے آتا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف عملی کارروائی کرکے اس کے نتائج سے عوام کو آگاہ کیا جائے ۔ماضی میں تو روزانہ کی بنیاد پر خطرات کا انتباہ اور دہشت گردی کے واقعات ساتھ ساتھ ہوتے رہے ہیں تازہ ترین صورتحال اس لئے بھی خوف کاباعث ہے کہ گزشتہ روز کے بدترین واقعے نے وہ تمام یادیں تازہ کر دی ہیں جن کو ذہن سے کھرچنے میں زمانہ لگا۔اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت پاکستان میں سکیورٹی کے حوالے سے گزشتہ حکومت سے بہتر ثابت نہیں ہوئی بلکہ افغانستان کی عبوری حکومت کے آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے ۔حیران کن امر یہ ہے کہ ہمارے حساس اداروں کو افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کی روانگی کے مقام سے لیکر ان کی تعداد تک کاتو علم ہوتا ہے مگر اس کے بعد کے مراحل میںحساس اداروں کی کارکردگی دکھائی نہیں دیتی گزشتہ دنوںپشاور میں دہشت گردی کا جو بدترین واقعہ رونما ہوا تھااس کی بھی اطلاع اگر نہ تھی تو اس کا خدشہ اور امکان بہرحال ظاہر کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کی روک تھام نہ ہوسکی ۔سکیورٹی کے حوالے سے ہماری پولیس اور حکام کسی حساس مقام و عمارت کے دروازے پر عملہ تعینات کرنے کو کافی سمجھتے ہیںشہر میں آمدورفت اور خاص طور پر حساس مقامات کے ارد گرد نہ تو سادہ کپڑوں میں تعینات عملے کی کوئی کارکردگی اور پیشگی کارروائی نظر آتی ہے اور نہ ہی جابجا لگے سی سی ٹی وی کیمروںسے مانیٹرنگ کا کچھ نتیجہ سامنے آتا ہے سوائے اس کے کہ جب دہشت گرد عناصر اپنی کارروائی کرکے فرار ہوتے ہیں یا پھرخود کو دھماکے سے اڑا دیتے ہیںاس کے بعد وہ تمام فلم بندی سامنے لائی جاتی ہے جس کا کیا حاصل ؟۔سکیورٹی کے اداروں کو یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں کہ حفاظتی اقدامات صرف دروازے پر کرلینا کافی نہیں بلکہ شہر کے داخلی مقامات اور حساس نوعیت کے علاقوں میں نگرانی کا مسلسل عمل ہونا چاہئے اور مشکوک افراد پرہر وقت کڑی نظررکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کوچہ رسالدار میں مسجد میں خود کش حملہ آور سمیت اس کے سہولت کاروں کے نام اور جو دیگر تفصیلات سامنے آئی ہیںیہ کوئی کارکردگی اور کارروائی نہیں بلکہ سانپ گزر جاے کے بعد لکیر پیٹنے کا عمل ہے یہی اطلاعات اگر بروقت حاصل ہوتیں اور اس کے نتیجے میں کارروائی عمل میں لائی جاتی یا کم از کم حساس علاقے میں مشکوک افراد کا داخلہ اور سرگرمیاں ہی بروقت روکنے یا کم از کم اس کی کوشش ہی دکھائی دیتی تو حوصلہ افزاء امر ہوتا۔ اب ان اطلاعات کا کیا حاصل۔ 2020ء سے اگرایک مشکوک شخص غائب تھا حملہ آور پشاور میں مقیم رہا پھر افغانستان چلا گیا پھر نام بدلتے رہتے تھے جبکہ سہولت کار سعودی عرب میں بھی رہے خود کش بمبار کا فارم ب بھی بنا ہوا تھا دو سال تک انہوں نے کالعدم تنظیم سے ٹریننگ بھی لی تو کیا اس سارے عمل کے دوران کسی بھی ادارے کے نوٹس میں ان کی سرگرمیاں نہ آئیںاب جو تفصیلات سامنے آئی ہیںاس سے مختلف اضلاع میں اس نیٹ ورک کے خلاف آپریشن کو بھی اس لئے مشکوک قرار دیا جا سکتا تھا ہے کیونکہ کسی بھی نیٹ ورک کے سیال اور متحرک و مشتبہ عناصر کا اس طرح کے واقعے کے بعد آرام سے اپنے کمین گاہوں میں بیٹھے رہنے کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بہرحال حکام کی جانب سے جو معلومات میڈیا کے ساتھ شیئر کی گئی ہیںاور اس میںنیٹ ورک کے خلاف جن عملی اقدامات کا تذکرہ ہے ان کو یکسر رد کرنے کی کوئی وجہ نہیںا س سے قطع نظر جو مبینہ طور پر بیس دہشت گرد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہو گئے ہیں توقع کی جانی چاہئے کہ ہمارے حساس ادارے ان کے تعاقب میں ہوں گے اور حساس مقامات پر خاص طور پر و دیگر مقامات پر بالعموم پوشیدہ اور اعلانیہ سکیورٹی کے تہہ در تہہ انتظامات کرکے جہاں دفاعی حفاظتی اقدامات یقینی بنائے جائیں گے وہاں ان دہشت گردوں کا کھوج لگا کر ان کو گرفتار کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی جاسکے گی۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردوں کے صفایا کی مہم