کون کہتا ہے یہاں نام و نسب چلتا ہے

تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی سیاسی صورتحال بلآخر”سیچوریشن پوائنٹ” پر پہنچ کر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں بدل گئی ہے’ اور اب معاملہ آریا پار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا’ تحریک عدم اعتماد کی افواہیں بہت دنوں سے پھیلی ہوئی تھیں ‘ افواہوں کے سنگ سنگ حکومتی حلقوں کی جانب سے اپوزیشن پر طنزو تشنیع کے تیر بھی برسائے جارہے تھے جن میں استہزائیہ بیانیے کے علاوہ اپوزیشن کو”غیرت”دلانے کی باتیں بھی ہو رہی تھیں اور ہر بار جب اپوزیشن کی جانب سے کسی تاریخ کی سن گن ہونے کے بعد وہ تاریخ گزرجاتی تو نہ صرف وزراء ‘ مشیر بلکہ حکومت کے حامی اینکرز وغیرہ بھی لنگ لنگوٹ کس کر میدان میں اتر آتے ‘ بعض تبصرے سخت بلکہ انتہائی رکیک الفاظ پر مشتمل ہوتے اسی طرح سوشل میڈیا ٹرولرز بھی اس میدان مبارزت میں کود کر اخلاقیات کی تمام حدیں پار کردیتے ‘ اور اگر اس صورتحال پر غیرجانبدارانہ تنقیدی نظر ڈالی جائے تو ملک کی سترسالہ سیاسی تاریخ میں کم کم ہی ایسا ہوا ہے کہ مخالفانہ بیانیے میں الفاظ کو اس قدر”بے لباس” کیاگیا ہو بدقسمتی سے حالیہ چند برسوں کے دوران جو سیاسی بد زبانی دیکھنے کو ملتی رہی ہے اس کا کارکن سیاسی قائدین کی اپنی ذہنی پسماندگی رہا ہے ‘ حالانکہ سیاست سنجیدگی ‘ متانت اور بردباری کا تقاضا کرتی ہے ‘ سیاسی مخالفت اپنی جگہ مگر سیاسی مخالفت کو ذاتیات سے آلودہ کرنا ہم نے ماضی میں کبھی نہیں دیکھا ‘ ایک وقت تھا جب نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے مابین سیاسی لڑائی بھی ذاتی حملوں میںڈھل گئی تھی تاہم وہاں بھی دونوں جماعتوں کو صف اول کی قیادت نے ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے کئے نہ ہی زبان کو آلودہ ہونے دیا اور پھر دونوں جماعتوں کے مابین میثاق جمہوریت پر اتفاق کرنے کے بعد یہ سلسلہ مکمل طور پر رک گیا تھا ‘ اور اس پر آج تک عمل جاری ہے ‘ سچ کہا ہے کسی سیانے نے کہ اگرکسی کواپنے نام ونسب کا علم نہ ہوتو وہ سیاست میں حصہ لے ‘ مخالفین اس کی اصلیت کھول کر اس کے ہاتھ میں پر رکھ دیں گے یعنی بقول عباس تابش
کون کہتا ہے یہاں نام ونسب چلتا ہے
یہ میاں عشق ہے اور عشق میں سب چلتا ہے
خیر یہ تو چند جملہ ہائے معترضہ تھے ‘ بات ہو رہی تھی تحریک عدم اعتماد کی ‘ اور اس حوالے سے اپوزیشن جماعتیں اب تک اس لئے خاموش تھیں کہ انہیں”غیرجانبداری”کا یقین نہیں تھا’ تاہم اندر ہی اندر ان کی تیاریاں بھی جاری تھیں اور رابطے بھی ‘ ظاہر ہے کوئی عقل سے پیدل ہی ہو گا جو جان بوجھ کر سیاسی خود کشی پرآمادہ ہوگا ‘ اس لئے کہ اس دوران پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی”بوجوہ” علیحدہ ہوکرجس قسم کا کھیل مبینہ طور پررچائے ہوئے تھی اور جس کے ”منفی” نتائج برآمد ہوئے تھے ‘ ان کو سوچ کر نون لیگ آگے کنواں پیچھے کھائی کے کھیل میں قدم رکھنے پرتیار نہیں تھی ‘ اس لئے سیاسی شطرنج کی بساط پر ایک ایک مہرے کو آگے بڑھاتے ہوئے دائیں بائیں ‘ آگے پیچھے بھی نظر رکھنا پڑتی ہے کہ کہیں کوئی غلط چال مقابل کی جانب سے شہ مات پر منتج نہ ہو جائے
بساط عشق ‘ پہ اس نے بچھا دیئے مہرے
سو ہم بھی دل ہی پہ شہ مات کرکے دیکھتے ہیں
خدشات کا اظہار اب بھی کیا جارہا ہے ‘ خصوصاً سپیکر کے”سابقہ” کردار کوجب اسی قسم کے ایک معاملے میں موصوف نے ”گنتی” کے معاملات میں مبینہ طور پر ڈنڈی مار کر نشقہ ہی بدل لیا تھا ‘ اب بھی زیر بحث لا کر تحریک عدم اعتماد کے نتائج کو ”سیاسی جھرلو” کے ذریعے تبدیل کرنے کی باتیں عام ہیں ‘ اگرچہ اصولاً صدرمملکت ‘ سپیکر قومی اسمبلی اور سینٹ کے چیئرمین کے صوبوں سے گورنرز اور سپیکر صوبائی اسمبلی کے عہدوں کو غیر جانبدار ہونے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ماضی میں ایسا بہت حد تک ہوتا رہا ہے ‘ مگر موجودہ دور میں یہ مناصب اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے کے تقاضے پورے کرتے دکھائی نہیں دیتے ۔ ماضی میں ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ جیسے ہی کسی پارٹی عہدیدار کو محولہ بالا مناصب پرتعینات کیا جاتا تو وہ ا پنی جماعتی وابستگی ختم کرکے عملی طور پر خود کو غیر جانبدار قرار دے دیتا ‘ مگر جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے ان عہدوں پر تعینات افراد نے برملا پارٹی کے ساتھ وابستگی برقرار رکھتے ہوئے پارٹی مفادات کو منصب کے تقاضوں پرترجیح دی ہے اور کھلم کھلا پارٹی کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھا ہے ‘ اس لئے اگر سپیکر قومی اسمبلی سے اپوزیشن کے حلقوں میں خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے اس کی وجوہات خود جناب اسد قیصر نے اپنے ماضی کے عمل سے اپوزیشن کو فراہم کی ہیں ‘ اپوزیشن کو نہ صرف یہ فکر لاحق ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی اجلاس بلانے میں تاخیری حربے استعمال کر سکتے ہیں بلکہ مبینہ طور پرگنتی کے عمل پر اثرانداز بھی ہو سکتے ہیں ‘ اگرچہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد اسمبلی سیکرٹریٹ میں داخل کرنے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے رولز پرعمل کرنے کی بات کی ہے جس پر اظہار اطمینان کیا جانا چاہئے ‘ تاہم بقول شخصے دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ‘ سو اگراپوزیشن کے حلقوں میں کچھ خدشات ابھر رہے ہیں تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے ‘ ہاں ا لبتہ وہ جوبعض ”اداروں” کی توقعات کو وزن دے رہے ہیں ‘ اس سارے کھیل میں ایک اور موڑ سامنے آیا ہے اور وہ ہے پنجاب میں سیاسی ہلچل ‘ یعنی وہاں بھی ترین گروپ اور علیم گروپ نے پارٹی کے اندر جس ”مبینہ بغاوت” کی کوششیں شروع کر دی ہیں ‘ ان سے بھی پارٹی کے حلقے کافی پریشان ہیں جبکہ وزیر اعظم نے اس صورتحال میں اپنا وزن ایک بارپھر عثمان بزدار کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو منصب سے ہٹانے سے صاف انکار کر دیا ہے ‘ یوں سیاسی صورتحال گھمبیر ہوتی جارہی ہے ‘ اور سیاسی چالیں چلتے ہوئے اس کھیل کے میدان میں مقابل قوتوں میں کون جیتا ہے اور کون ہارتا ہے اس کا پتہ(قانون کے مطابق)آئندہ چند دنوں میں سامنے آسکتا ہے ‘ تاہم اگر اس دوران میں کوئی”انوکھی” ہو جاتی ہے تو نتیجے کی توقع جلد بھی کی جا سکتی ہے ۔
جانے کب دے دے صدا کوئی حریم ناز سے
بزم والو’ گوش بر آواز رہنا چاہئے

مزید پڑھیں:  تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جائے