یوم نسواں پر مظاہرہ اور مارچ

عالمی یوم نسواں کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں جن کے شرکاء نے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے ”اچھا مرد ریپ نہیں کرتا ‘ اچھی ‘ عورت جسم کی نمائش نہیں کرتی ‘ اسلام نے حقوق دیئے مسلمان کب دے گا’ مار نہیں پیار ورنہ ایف آئی آر’ مجھے تمہاری نگاہوں سے حفاظت کی ضرورت ہے ‘ عورت ہوں ‘ انسان بھی ‘ آزادی دو غلامی نہیں ‘ عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہوں ‘ مانگ نہیں ‘ اعلان ہے سن لو ‘ اپنا حق اب لے کے رہے گی ‘ عورت بھی انسان ہے سن لو ‘ ہماری بیٹیاں ہمارا فخر ‘ مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے ‘ مجھے اپنے جینے کا حق چاہئے ۔یہ سارے نعرے مناسب اور توجہ طلب ہیں جس پر معاشرے کو ہی نہیں دینی طبقات کو بھی سوچنا چاہئے دوسری جانب مذہبی تنظیموں کی جانب سے نکالی گئی ریلیوں میں حجاب کے حق میں اور مسلم فیملی نظام کی حمایت میں پوسٹرز اٹھائے گئے تھے ۔ہر سال عالمی یوم خواتین پر دو قسم کے نظریات کی حامل خواتین مارچ کرتی آئی ہیں جس میں سے ایک خود کو روشن خیال قرار دیتی ہے جبکہ دوسری جانب مذہبی تنظیموں کی جانب سے باپردہ خواتین مارچ کرتی ہیں علاوہ ازیں مذہبی تنظیموں کی جانب سے بھی سڑکوں پر ردعمل کا اظہار ہوتا ہے اس مرتبہ بھی یہی عمل دہرایا گیا گزشتہ سال دو سال کے دوران خواتین مارچ میں جو نعرے لگے اور جو پوسٹر بنائے گئے تھے اور ساتھ ہی ساتھ ٹیلی ویژن چینلز پر ان نعروں اور پوسٹرز کا کمزور دفاع کیا گیا تھا وہ ایک تکلیف دہ باب تھا۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ اس مرتبہ خواتین مارچ میں جو نعرے لگائے گئے وہ قابل اعتراض نہیں دوسری جانب سے بھی گزشتہ سالوں کی بہ نسبت تحمل کا مظاہرہ کیا گیا جو خوش آئند امر ہے جہاں تک مارچ کا تعلق ہے ہر دو فریقوں کو ایک دائرہ کار کے اندر رہ کر اپنے جذبات کے اظہار کا حق حاصل ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ہر دو جانب سے نعروں اور خیالات سے قطع نظر اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے توپوری طرح ہم آہنگی اور ہم خیال ہونا تو ممکن نہیں لیکن بہرحال حقوق نسواں کے حوالے سے دونوں متفق ہیںایسے میںدین اسلام میں عورتوں کے جوحقوق مقررکئے گئے ہیں اسی پر مکمل طور پر عملدرآمدہی بہتر فارمولہ ہے ۔
ایک اور دعویٰ
کوچہ رسالدار حملے کے تین مبینہ سہولت کاروں کو ریگی للمہ میں آپریشن کے دوران ہلاک کئے جانے کا عمل کیوں ضروری ٹھہرا کیا ان ملزموںمیں سے کسی ایک کو بھی زندہ یا زخمی حالت میں گرفتار کرنا ممکن نہیں تھااگرایسا ہوتا تو تحقیقات کو آگے بڑھانے میںمدد ملتی دوسری جانب پولیس نے کوچہ رسالدار خود کش دھماکے کی تحقیقاتی ٹیموں کی جانب سے خیبر اور درہ آدم خیل میں سرچ آپریشن کے دوران خود کش حملہ آور کے نیٹ ورکس سے روابط رکھنے والے متعدد افراد کی گرفتاری کا بھی دعویٰ کیا ہے ۔امر واقع یہ ہے کہ پولیس حکام اس وقت ہی حرکت میں آتے ہیںجب دہشت گردی کی کوئی واردات ہونے پر پولیس پر دبائو بڑھ جاتا ہے جس سے نکلنے کے لئے عموماً اس طرح کے حربے استعمال ہوتے ہیں جو مناسب نہیں بہرحال یہ عمل مشکوک تھا یا پھر ناگزیر ہو گیا تھا اس سے قطع نظر پولیس اگر دہشت گردی کی روک تھام کے لئے پرعزم ہے یقینا پولیس پرعزم ہو گی اور یہ پولیس کی ذمہ داری بھی ہے البتہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ پولیس کسی بڑی واردات کا انتظار نہ کرے بلکہ مہینے میں ایک دو بار ضرورہر حساس اور اہم نوعیت کے علاقوں میں سرچ آپریشن اور مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی لازمی کی جائے تاکہ اس طرح کے عناصر حملہ کرنے کی بجائے خود کو خطرات سے بچانے کی تگ و دو میں لگ جائیں۔
احتجاجی ہی کچھ خوف خدا کریں
پشاور میں ایک مرتبہ پھر احتجاجی مظاہروں کے باعث ٹریفک بری طرح متاثر ہوا ‘ سڑکوں پر گزشتہ روز 500ملازمین کے احتجاج نے پورے پشاور کو یرغمال بنا لیا جی ٹی روڈ پر بدترین رش اور پانچ گھنٹے تک دھرنے اور روڈ بلاک ہونے کے باعث شہر میں ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ‘ ایمبولینس گاڑیوں اور سکول وینز کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاج سے پورے شہر میںٹریفک کا مسئلہ آئے روزسامنے آتا ہے حکومت اور انتظامیہ تو احتجاج کرنے والوں کے سامنے بے بس ہیں کم از کم احتجاج کرنے والے افراد کے قائدین ہی عوام کو مشکل میں ڈالنے کی بجائے جیل روڈ پر اسمبلی کے سامنے ایک طرف کی سڑک بند کرکے احتجاج کریں تو ان کا احتجاج بھی ریکارڈ ہو گا اورعوام کو بھی خجل خوار ہونے سے نجات ملے گی۔

مزید پڑھیں:  '' پاکستان اور افغانستان ''حاصل مطالعہ