وزیر اعظم کو پہل کرنی چاہئے

پاکستان پیپلز پارٹی’ جمعیت علمائے اسلام(ف)اور مسلم لیگ(ن)پر مشتمل متحدہ اپوزیشن نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں172سے زائد ووٹ حاصل کریں گے۔حزب اختلاف کی جانب سے مہنگائی ‘ بیروزگاری اور ملکی مسائل کے حل میں ناکامی کے معمول کے الزامات وتنقید کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی پر بھی سخت تنقید کی ہے بلکہ اسے مرکزی الزام کی صورت دی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کی آخری واردات ہوگی اور ہم ان کو ایسی شکست دیں گے کہ یہ2028 تک نہیں اٹھ سکیں گے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے پیچھے ایک ہاتھ نہیں، کئی بیرونی ہاتھ ہیں، جو لوگ آزاد۔امرواقع یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو ملکی سیاست میں کئی ماہ کی غیریقینی صورتحال کے بعد جمع کرایا گیا۔جوبلند و بانگ دعوے حکومت اور حزب اختلاف کی جانب سے کئے جا رہے ہیں ابھی ان کی حقیقت کھلنے کا وقت آگیا ہے اس سارے عمل میں21دن زیادہ سے زیادہ لگیں گے ۔حزب اختلاف کو اپنے دعوئوں کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اسمبلی میں اکثریتی ارکان کووزیر اعظم مخالف ووٹ سے ثابت کرنا ہو گا البتہ حکومت کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ حزب اختلاف کے دعوئوں کو قومی اسمبلی کا بلاتاخیر اجلاس بلا کر غلط ثابت کر سکتی ہے قبل ازیں بھی وزیر اعظم عمران خان عجلت میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے اعتماد کا ووٹ یا کم از کم اپنی حمایت ثابت کرچکے ہیںاس مرتبہ بھی اگرحکومت کے دعوے کے مطابق اگر ان کے پاس قومی اسمبلی کے اکثریتی ارکان کا اعتماد حاصل ہے تو قومی اسمبلی کا اجلاس بلاتاخیر طلب کر لینا چاہئے تاکہ حزب اختلاف کے غبارے سے ہوا نکل جائے ۔اجلاس طلب کرنے میں تعجیل حکومت کے حق میں جائے گا اور اجلاس طلب کرنے میں جتنی تاخیر ہو گی اس سے یہی تاثر لیا جائے گا کہ قومی اسمبلی میں حکومت کو اکثریت کی حمایت حاصل نہیں اور حکومت وقت حاصل کر رہی ہے ایسے میں جوں جوں اجلاس بلانے میں تاخیر ہوتی جائے گی اپوزیشن کا پلہ بھاری ہونے کے امکان میں اضافہ ہوتاجائے گا۔صورتحال میں جس طرح صبح و شام ڈرامائی تبدیلی آتی جارہی ہے وہ حکومت کے حق میں نہیں بلکہ اس سے حزب اختلاف کے دعوئوں کو تقویت مل رہی ہے خاص طور پر تحریک انصاف کے اپنے اراکین کا پنجاب میں تبدیلی کے لئے کھل کر سامنے آنا اور گروہ بندی جبکہ پنجاب اور مرکز میں حکومت کے بڑے اتحادی ق لیگ کے سربراہ کی جے یو آئی کے قائد سے ان کی رہائشگاہ پر ملاقات سنجیدہ معاملہ ہے یہ درست ہے کہ سیاستدانوں کے درمیان کبھی بھی کسی بھی وقت ملاقات کوئی انہونی بات نہیںہوتی لیکن جاری صورتحال کے تناظر میں محولہ ملاقات نہایت اہمیت کی حامل اور واضح اشارہ ہے ۔علاوہ ازیں حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے کھل کر حکومت کی
حمایت اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہونے کی یقین دہانی سے بھی کسی نہ کسی طرح بہرحال گریز نظر آتا ہے ۔ملکی سیاست میں حالیہ دنوں میں کافی ہلچل دیکھنے میں آئی، جس کے دوران حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں ہوئیں، حزب اختلاف کی جماعتوں کے اجلاس ہوئے اور سیاسی شخصیات نے اپنے اپنے موقف کی لابنگ کی۔اب جبکہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی ہے توتحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے حزب اختلاف کو سادہ اکثریت کی ضرورت ہوگی یعنی قومی اسمبلی کے342 میں سے172اراکین کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے155ارکان، ایم کیو ایم کے7’بلوچستان عوامی پارٹی کے5′ مسلم لیگ (ق)کے5 ارکان’ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے 3اور عوامی مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے۔جبکہ مسلم لیگ (ن)کے84’پاکستان پیپلز پارٹی کے56′ متحدہ مجلس عمل کے15′ بلوچستان نیشنل پارٹی کے4′ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک’ جمہوری وطن پارٹی کا ایک اور اس کے علاوہ4آزاد اراکین شامل ہیں ۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری اوپن ووٹ کے ذریعے ہوتی ہے۔اس لئے اس میں کسی مشکوک ووٹ کی گنجائش نہیں ہوتی اور حامی و مخالفین کو واضح طور پر گنا جاتا ہے۔ماضی میںپاکستان میں قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خلاف 2بار تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔مگر دونوں تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئیں یقینا وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کرنا نہایت مشکل کام ہوتا ہے اگر عمران خان کے خلاف تحریک کامیاب ہوتی ہے تو یہ ملکی تاریخ میں پہلی مثال ہو گی ملک میں صبح و شام بدلتی سیاسی صورتحال اور ہوائوں کی رخ کی خصوصاً تبدیلی اور باد مخالف کے ساتھ باد بہاری بننے کے تاثر سے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا امکان زیادہ نظر آتا ہے ۔وزیر اعظم جس سیاسی چال اور حزب ا ختلاف کو چاروں شانے چت کرنے کادعویٰ رکھتے ہیںاب وقت آگیا ہے کہ جاری سیاسی گیم کوطوالت اختیار نہ کرنے دیا جائے اور وزیر اعظم وہ کر گزریں جس کا وہ عندیہ دے رہے ہیں جہاں تک وطن عزیز کی سیاست میں بیرونی ہاتھ اندرونی مداخلت اور بین الاقوامی سازشوں کے تذکرے اور الزامات کا سوال ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔حزب اختلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے جس طرح پرعزم ہے اور پھولے نہیں سما رہی ہے وہ بھی اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ تحریک اعتماد کی کامیابی کے بعد ان کے پاس عوام کے مسائل کے حل کے لئے کیا منصوبہ ہے اور وہ کس طرح سے موجودہ حکمرانوں سے بہتر ثابت ہوں گے ۔ایک اور اہم بات اپنے بل بوتے پر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی بھی ہے حزب اختلاف خالص سیاسی طریقے سے کامیاب ہو تو اس میں کوئی قباحت نہیں لیکن اگر بیساکھیاں استعمال کی گئیں تو ملکی سیاست کبھی بھی گرداب سے نکل نہیں سکے گی اور ایسی تبدیلی بھی مصنوعی ہو گی۔

مزید پڑھیں:  پاک روس تعلقات