کشمیر میں مصنوعی نارملسی پر امریکی اطمینان

امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ بھارت کشمیر میںحالات نارمل کرنے کے لئے کچھ اقدامات اُٹھا رہاہے۔یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب بھارت نے سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میںتیس ہفتے بعد نمازیوں کو اندر داخل ہونے کی اجازت دی جس کے بعدلوگوں نے طویل عرصے بعد نماز جمعہ اد اکی ۔ خطبہ جمعہ سید احمد نقشبندی نے دیا جبکہ میرواعظ پانچ اگست 2019سے بدستور نظر بندی کا شکار ہیں۔مسجد کو کھول دیا گیا مگر امام بدستور نظر بند ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میرواعظ عمر فاروق جو حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی ہیں اپنے خطبے میں مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہیں۔ ایک نمازی کا کہنا تھا کہ بھارت نے ہمیں جامع مسجد سے دور رکھ کر ہمارے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ۔نارملسی کا ایک اور قدم یہ ہے کہ سید علی گیلانی کی وفات کے چھ ما ہ بعد ان کے گھر سے فوجی پہرہ ہٹا لیا گیا ۔سیدعلی گیلانی گزشتہ برس یکم ستمبر کو عالم نظر بندی میں انتقال کر گئے تھے اور بھارتی فوجیوں نے ان کی میت کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کیا تھا ۔سید علی گیلانی گیار ہ برس سے مسلسل نظر بندی کا شکار تھے انہیں نماز جمعہ کے لئے قریبی مسجد میں جانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔سید علی گیلانی کے گھر سے پہر ہ تو ہٹالیا گیامگر ان کی قبر اب بھی بھارتی فوج کے پہرے میں ہے۔ امریکہ جن آزادیوں پر اطمینان کا اظہار کر تا ہے یہ کوئی احسان نہیں یہ آزادیاں کشمیریوں کا بنیادی انسانی حق ہے اور انہیں بھارت نے سلب کر رکھا ہے ۔ اس سے پہلے بھی مقبوضہ جموں وکشمیر میں 4Gانٹر نیٹ کی بحالی پر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرس نے خیرمقدمی بیان جا ری کیا تھا ۔ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکہ بھارتی کشمیر میں 4Gانٹرنیٹ کے بحالی کا خیرمقدم کرتا ہے ۔”بھارتی کشمیر ” کی اس اصطلاح پر پاکستان نے حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ سے احتجاج کیا ۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس پر باضابطہ احتجاجی ٹویٹ بھی جاری کیا تھا۔بھارتی کشمیر اور پاکستانی کشمیر کی اصطلاحات سفارتی سطح پر استعمال ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی ۔ظاہر ہے کہ دنیا کے دوسرے ممالک نہ بھارت کے کہنے پر پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور نہ پاکستان کے کہنے پر مقبوضہ کشمیر کی اصطلاح استعمال کر سکتے ہیں ۔دنیا معاملات ومسائل کو اپنی عینک سے دیکھتی ہے ۔اس وقت اس بات پر کامل اتفاق نظر آتا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے ۔پاکستان کے احتجاج پر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان کو پریس بریفنگ میں اس سوال کا سامنا کرنا پڑا تھاکہ کشمیر سے متعلق کیا امریکہ کی پالیسی بدل گئی ہے ؟۔امریکی ترجمان نے وضاحت کے ساتھ کہا تھاکہ کشمیر کے بارے میں امریکہ کا موقف تبدیل نہیں ہوااور وہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ سمجھتا ہے ۔امریکہ کی اس وضاحت کا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خیرمقدم کیا تھا۔اس وضاحت کے بعد اب کشمیر پر امریکہ کی پالیسی کو سمجھنا آسان ہواتھا ۔اس کا صاف مطلب ہے کہ چین کی طرح امریکہ بھی پانچ اگست کے واقعات پر بھارت کا موقف قبول کرنے کو تیار نہیں ۔بھارت نے جس زعم میں یہ قدم اُٹھایا تھا وہ قطعی بے نتیجہ رہا اور بھارت جس حصے کو یونین ٹیریٹری قراردیتا ہے دنیا اسے بدستور متنازعہ سمجھتی ہے ۔دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ یا اندرونی مسئلہ کہہ رہا ہو۔امریکہ سے برطانیہ اور روس سے چین تک بڑی عالمی طاقتیں ہوں یا جرمنی ،فرانس اور ترکی یا جاپان کہیں بھی کشمیر کے بارے میں بھارتی موقف کو من وعن قبول نہیں کیا جاتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تنازعہ رات کی تاریکی میں دو ملکوں کی کھینچا تانی سے شروع نہیں ہوا اور صرف دو ملکوں کے درمیان ہی اُلجھ کر نہیں رہا بلکہ یہ مسئلہ پیدا اس وقت ہوا جب اپنے وقت کی سپر طاقت برطانیہ زوال کا شکار ہو کر برصغیر سے اپنا بوریا بستر سمیٹ کر جارہی تھی اور پیچھے رہ جانے والے طاقت کے خلاء کو پُر کر نے کے لئے مختلف اقدامات اُٹھائے جا رہے تھے ۔اس طرح یہ ایک عالمی طاقت کے زوال اور اس کے اثرات سے جڑی ہوئی کہانی کا حصہ ہے۔جب مسئلہ شروع ہوا تو بھی یہ دوملکوں کے دالان اور دہلیز تک محدود نہیں رہا بلکہ طاقتور فریق بھارت اسے اقوام متحدہ میں لے گیا جہاں برسوں اس مسئلے پر بحث ہوتی رہی ۔کشمیریوں کو سنا جاتا رہا ،پاکستان اور بھارت کا موقف جاننے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ سر اوون ڈکسن جیسے آزاد مبصرین اور محققین سے اس بندگلی سے نکلنے کی رائے معلوم کی جاتی رہی ۔سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کے ممبر ممالک اس ساری بحث میں حصہ لیتے رہے ۔اپنی رائے ظاہر کرتے رہے اور آخر پر اقوام متحدہ قراردادیں منظو رکر کے خواب خرگوش میں گم ہوگئی۔کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا حصہ رہا بحث نہ ہونے کے باوجود مسئلہ کی فائل حل طلب مسائل کی الماری میں آج بھی موجود ہے۔اسی طرح روس چین ،برطانیہ جیسے ممالک موجودہ دور میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے اسباب اور عوامل کا ازسر نوجائزہ لیتے ہوں گے تو لامحالہ وہ ماضی میں اپنے راہنمائوں اور سفارت کاروں کے بیانات اور سرگرمیاں دیکھتے ہوں اور تاریخ کے صفحات پر محیط 74سال میں جابجا انہیں اپنا عکس دکھائی دیتا ہوگا ۔اس تاریخ کو نظر انداز کرنا کسی ملک کے لئے ممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  ابابیل فورس کی ناکامی