تحریک عدم اعتماد

ارکان قومی اسمبلی کی وااضح حمایت حاصل ہونے کے حوالے سے اپوزیشن رہنمائوں کے دعوی کے جواب میں وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک حزب اختلاف کی آخری واردات ہوگی۔ تحریک کی ناکامی سے حکومت مزید طاقتور ہوگی۔ ہمارے مخالفین کو ایسی شکست ہوگی کہ وہ 2028 سے پہلے اٹھ نہیں سکیں گے۔ اس سے قبل متحدہ حزب اختلاف نے152ارکان کے دستخطوں سے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروائی۔ تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کے نوٹس پر 147ارکان جبکہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن پر102 ارکان کے دستخط ہیں۔ اپوزیشن رہنما کہہ رہے ہیں کہ انہیں کامیابی کے لئے مطلوبہ تعداد کی حمایت حاصل ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن پر14دن کے اندر اجلاس بلانا ضروری ہے۔ حکمران اتحاد کو قومی اسمبلی میں179ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ اپوزیشن کے162 ارکان ہیں۔ ہنگو سے ایک رکن قومی اسمبلی چند دن قبل وفات پاچکے ان کی نشست پر ضمنی انتخابات10اپریل کو ہونے ہیں۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی پارلیمانی امور بابر اعوان کے مطابق اپوزیشن کی جمع کروائی تینوں درخواستوں کا قانونی جائزہ لینا سپیکر آفس کا آئینی فرض ہے البتہ ہم بھی ان درخواستوں میں موجود قانونی سقم کو بہرطور دیکھیں گے۔ وزیراعظم نے گزشتہ روز یہ بھی کہا کہ فلور کراسنگ کرنے والے ارکان ہمیشہ کے لئے سیاسی عمل میں شرکت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ سیاسی محاذ آرائی کے عروج پر حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر الزامات کی بارش میں بھی مصروف ہیں۔
فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے متحدہ اپوزیشن کو 10مزید ارکان کی ضرورت پڑے گی۔ اپوزیشن کے حلقے پرامید ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے ایوان میں پیش کئے جانے تک وہ حکمران اتحاد میں شامل بعض جماعتوں کی اعلانیہ حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ قواعدوضوابط کے مطابق اپوزیشن کے پاس اپنی تحریک کو کامیاب کرانے کے لئے واحد راستہ یہی ہے کہ وہ حکمران اتحاد میں شامل چھوٹی جماعتوں کی تائید حاصل کرلیں ،وزیراعظم کہتے ہیں کہ فوج اور جہانگیر ترین چوروں کا ساتھ نہیں دیں گے۔ جہانگیر ترین ارکان اسمبلی کا ایک گروپ رکھتے ہیں ان سے ہر دو فریق امیدیں باندھنے میں حق بجانب ہیں البتہ مسلح افواج کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دستور میں دیئے گئے فرائض اور طے شدہ حدود سے ہٹ کر فوج سمیت کسی بھی دوسرے محکمے یا ادارے کا کوئی بھی کردار نہیں دستور کی بالادستی اور فرائض کی بجا آوری سے انحراف کبھی قابل تحسین نہیں سمجھا گیا۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے بعض ارکان اور معاونین خصوصی نے ارکان اسمبلی کی خریدوفروخت کے حوالے سے جو دعوے کئے ہیں ان دعوئوں کو ثبوت کے ساتھ عوام اور پارلیمنٹ کے سامنے رکھنے میں کیا امر مانع ہے؟ جہاں تک تحریک عدم اعتماد کے پیچھے کسی عالمی سازش کا تعلق ہے تو اس ضمن میں بھی محض زبانی کلامی وعدے اور الزامات ناکافی ہوں گے۔ حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ روس یوکرائن تنازع میں امریکہ اور یورپی ممالک کی خواہش کے مطابق کردار اپنانے سے گریز کی پالیسی کے نتیجے میں یہ قوتیں اپوزیشن کی پشت پر ہیں تو اس پر دلیل و شواہد کے ساتھ عوام کو قائل کرنے کی ضرورت ہے۔ تحریک عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا حق ہے۔ اس کا مقابلہ کرنا اور عددی اکثریت ثابت کرنا حکومت کا فرض۔ مناسب تو یہی تھا کہ آئینی مدت کے آخری سال کے قریب پہنچی حکومت کے سربراہ(وزیراعظم)کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی بجائے اپوزیشن حکومت کی ان ناکامیوں کا وائٹ پیپر جاری کرتی جن سے بقول اس کے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ روزمرہ کے مسائل اور ان کی سنگینی پر دو آرا ہرگز نہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا حزب اختلاف نے پچھلے ساڑھے تین برسوں میں دو قدم آگے بڑھ کر حکومت کو کبھی ایسی پیشکش کی کہ عوام کو درپیش مسائل کے لئے باہمی تعاون سے حکمت عملی وضع کرلی جائے؟ اپوزیشن ایسا کرتی تو حکومت کے بہت سارے دعوئوں کی حقیقت کھل جاتی ، مروجہ سیاست کا المیہ یہ ہے کہ ساری سیاست چہروں کی تبدیلی کے لئے ہوتی ہے۔ تحریک انصاف نے متبادل بیانیہ پر 22سال کی جدوجہد کے بعد اقتدار تو حاصل کرلیا مگر متبادل بیانیہ پر کس حد تک عملدرآمد کرواسکی یہ پوشیدہ راز نہیں ہے۔ اپنے منشور پر عمل نہ کرسکنے اور مسائل کے گھمبیر ہوتے چلے جانے کی اب وہ لاکھ وجوہات پیش کرے حقیقت بہرطور یہی ہے کہ پچھلے ساڑھے تین برس اس نے اپوزیشن کی سیاست کے انداز میں ہی گزارلئے اس عرصہ میں آئی ایم ایف سے جو معاملات ہوئے ان کا بوجھ ایک طوق کی صورت میں عوام کے گلے پڑگیا ہے۔ بلاامتیاز احتساب کا وہ وعدہ جو اس کے متبادل بیانیہ نقش اول تھا کیوں پورا نہیں ہوسکا؟ اس کے جواب میں یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوگا کہ بیوروکریسی نے ہم سے تعاون نہیں کیا۔ طاقتوروں کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا۔ وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل تواتر کے ساتھ عوام کو یہ بتاتے رہے کہ ان کے پاس مختلف شعبوں کے300 ماہرین ہیں ہم اقتدار میں آنے کے 90 دن میں ایسی تبدیلیوں کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوجائیں گے جو جمہوری فلاحی مملکت کے قیام اور عدل و انصاف اور مساوات کی منزل تک لے جانے کے محفوظ سفر کا آغاز ہوگا۔ افسوس کہ یہ دعویٰ محض تقاریر اور بیانات کا حصہ ہی رہا۔ ماہرین کی عدم دستیابی اور بعض بااعتماد رفیقوں کی عدم اہلیت کا بھرم کورونا وبا کی اوپر نیچے آنے والی 4 لہروں نے رکھ لیا۔ مناسب ہوتا اگر صورتحال کا ادراک کرکے ازسرنو ٹیم بنانے اور منشور پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے پر توجہ دی جاتی۔ افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑرہا ہے کہ ایک تو اس طور غور کرنے اور عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ثانیا یہ کہ دوسری جماعتوں سے وفاداریاں تبدیل کر کے آنے والوں نے اہم منصبوں پر فائز ہونے کے بعد فرائض کی بجاآوری اور وزیراعظم کے مشن کی تکمیل میں کردار ادا کرنے کی بجائے مروجہ سیاست کی دھول اڑانے کو ہی کامیابی کی ضمانت سمجھ لیا۔

مزید پڑھیں:  آپریشن ۔۔''سہاڈی بس اے''