شکوک و شبہات کا باعث مبہم بیان

وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی آئین کی سکیم کے تحت فوج حکومت وقت کے ساتھ ہوتی ہے اگر فوج حکومت کے ساتھ نہیں ہوتی تو یہ پاکستان کی آئینی سکیم کے برعکس ہو گا دریں اثناء پاک فوج نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ ریاستی ادارے کا سیاست میں کوئی لینا دینا نہیں اس سلسلے میں غیر ضروری افواہیں نہ پھیلائی جائیں اور نہ ہی غیر ضروری بحث کی جائے ۔پاکستان میںالیکشن میں مداخلت سے لے کر حکومتی امور میںمداخلت کی شکوہ شکایات اور الزامات کوئی نئی بات نہیںجس پر قبل ازیں کچھ عرصہ پہلے تک فوج کی جانب سے کوئی رد عمل دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی تھی اور الزامات الزامات کی حد تک ہی رہتے تھے لیکن بڑھتے الزامات کے بعدبالاخر پاک فوج کے تعلقات عامہ کی جانب سے اس طرح کے بیانات پر رد عمل دینا شروع کیا گیافوجی ترجمان قبل ازیں بھی سیاست سے فوج کا کوئی لینا دینا نہیں ہونے کے بیانات جاری کرتے آئے ہیں تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی جانب سے بھی عدم مداخلت کی تائید واضح طور پر نظر آتی ہے جس کے بعد اس طرح کا کوئی شائبہ باقی نہیں رہنا چاہئے جہاں تک وفاقی وزیر اطلاعات کے بیانات کا سوال ہے اصولی طور پر پاک فوج حکومت کا ماتحت ادارہ ہے اور حکومتی احکامات پر عمل درآمد کی پابند ہے ۔اس حد تک تو پیشہ ور اور منظم فوج کے حوالے سے کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں جہاں تک سیاسی حوالے سے اور ایک خاص موقع پر وزیر اطلاعات کے بیان کا سوال ہے تو اس ڈھکے چھپے الفاظ میں بیان اور سوچ سے یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ حکومت کی مدد کی جائے جس کے جواب میں پاک فوج کے تعلقات عامہ کے سربراہ کی جانب سے واضح طور پر ایک مرتبہ پھر جس موقف کا اعادہ کیا گیا وہی آئین و دستور کاتقاضا ہے اور یہی وہ مناسب پوزیشن بھی ہے بہتر ہو گا کہ سیاسی جماعتیں خواہ وہ حکومت مخالف ہوں یا سرکاری سیاسی جماعت کسی کو بھی خلاف دستور توقع نہیں رکھنی چاہئے حکومتی اراکین و وزراء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسے اظہار خیال سے گریز کریں جس سے شکوک و شبہات جنم لیں۔
بھارت اشتعال سے باز آیا
پاکستان نے بھارت کی جانب سے سپر سونک فلائنگ آبجیکٹ کے ذریعے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر شدید احتجاج درج کرایا ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کے نتیجے میںہوا بازی کے سنگین حادثے کے ساتھ ساتھ شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہو سکتی تھیں۔ بھارت کی جانب سے حال ہی میں پاکستان کے سمندری حدود کی بھی خلاف ورزی کی کوشش کی گئی تھی جس کا پاک بحریہ نے بروقت پتہ لگا کر آبدوز کو واپس جانے پر مجبور کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت پے درپے بحری اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو جانچنے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ ان کو سال دو سال قبل ہی بخوبی اندازہ ہو جانا چاہئے تھا جب پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی مہنگی پڑ گئی تھی بھارت کی جانب سے میزائل فائر کرکے ایک مرتبہ پھرہماری صلاحیت کو آزمانے کا جو مسکت جواب ملا ہے یہی کافی ہے چونکہ بھارت جان بوجھ کر اس طرح کے چھیڑ چھاڑ کی عادی ہے اس لئے اسے غلطی پرمحمول نہیں کیا جا سکتا بہرحال اس حوالے سے بھارت سے وضاحت طلب کی گئی ہے کہ سرحدی خلاف ورزی کیوں کی گئی بھارت کی جانب سے جو بھی جواب آنا ہے اس سے قطع نظر بھارت کے لئے احتیاط کرنے کا مشورہ ہی بہتر مشورہ ہو گاتاکہ کوئی بھی غلطی بھارت کو بھاری نہ پڑ جائے اور خطے میں کشیدگی کا باعث نہ بنے۔
مفاہمت سے معاملہ نمٹانے کی ضرورت
جامعہ پشاور کی جائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے انتظامیہ اور حکومت کو بار بار مذاکرات کی پیشکش کامثبت جواب نہ دینے پر چودہ مارچ سے ہڑتال کا اعلان قابل توجہ امر ہے جائنٹ ایکشن کمیٹی کے صدر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں کوئی تدریسی و انتظامی امور نہیں نمٹائے جائیں گے ۔صوبے کے سرکاری جامعات میں بے چینی دور کرنے کے حوالے سے جامعات کی انتظامیہ اور حکومت کی سرد مہری کا رویہ مناسب امر نہیں ہڑتال سے تعلیمی ماحول کا متاثر ہونا فطری امر ہو گا اور اس سے سب سے زیادہ طالب علم متاثر ہوں گے ۔بہتر ہو گا کہ ہڑتال کی نوبت نہ آنے دی جائے اور معاملات کو مذاکرات کے ذریعے نمٹادیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  میزانیہ نہیں سیلاب بلا