ہر سخن جائے وہر نقطہ مقامے دارد

سیاست تدبر و تحمل سے تعمیرکا نام ہے ۔ یعنی امور زندگی کے معاملا ت میں تدبیر اور انتظام وانصرام کے حسن سے لبریزہو ںتواس کو سیاست کہا جا ئے گا چنانچہ قرآن حکیم کے مطا بق سیا ست کی بنیا د نبوت ہی ہے چنا نچہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے ساتھ کے بادشاہت اور حکمت بھی عطا ء کی ہے ، حکمت کااہم ترین شعبہ سیاست ہے اگر حکمت میں جھوٹ وعناد بھرا ہو تو وہ سیاست نہیں کچھ اور ہی ہے اس میں بدزبانی وبدکلامی کا کوئی علا قہ نہیں ہے ۔مگر افسوس ہے کہ پاکستان میںستر کی دہائی سے اس بدسخنی کا چلن سیا ست میں وبا ء کی طر ح پھیلتا چلاجا رہاہے ۔ اب تو اس کی انتہا ء نظر آنے لگی ہے ۔بدزبانی کا بھی ذومعنی استعمال بہت بڑھ گیا ہے ، ایسے رویوں سے لنڈہا ر تو موج مستی میںآجاتے ہیں لیکن مقصود قوم دور ہو تا چلا جاتا ہے ۔چنا نچہ یہ یقین ہو چلا ہے کہ فریب ‘ دھو کہ دہی ‘ وعد ہ خلا فی سیاست کی بنیا د ہے ۔اب تو سیا سی جلسوں میںایسی باتیںکی جانے لگی ہیںجن کا سیاست سے تو کوئی علا قہ نہیں لیکن انھیں سن کر حیر ان ہو جایا جا تا ہے ۔کوئی سیا ست دان اپنے منشور پر وگرام یا تعمیر کی بات کر تا نہیںدکھتا بلکہ مخالفین پر کیچڑ اچھا ل رہے ہوتے ہیں یہ صورت پالیما ن میںبھی سرایت کر تی نظر آنے لگی ہے حالا ں کہ ملک کے سب سے مقدس مقام کا درجہ رکھنے والے مقام کے کچھ تقاضے ہیں اور ان تقاضوں کی بنیا د پر وہا ں غیر پارلیمانی الفا ظ استعمال کر نے پرپابندی ہے ۔ کسی زما نے میں پا کستان کے بعض حکمر انو ں کی جا نب سے سوقیا نہ زبان کا استعمال بہت تھا جیسا کہ گورنر جنرل غلا م محمد بغیر گالی دیئے بات نہیں کر تے تھے ، مخالفین کی تضحیک کر نے میںایو ب خان کو بھی کوئی عار محسو س نہیں ہواکرتا تھا ۔ لیکن تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ان سب حکمرانو ں کا سیا سی اور اخلاقی انجام جو ہوا اسے تاریخ نے بھی معاف نہیں کیا ۔اس وقت مختلف حلقوں سب سے زیادہ تنقید پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے طر ز تخاطب پر ہو رہی ہے ، اس حقیقت کو مان لیناچاہیے کہ اقتدار سے پہلے پی ٹی آئی کو جو قبولیت عام حاصل تھی اس کا گراف احساس حد تک گر ا ہے ، یہ لمحہ ہے کہ دیگر پا رٹیو ں کو بھی اور پی ٹی آئی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی اپنی عوامی مقبولیت کے گراف کا جائز ہ لے کر خود کو سنبھالیں اور مثبت سیاسی اشارو ں کی طرف گامز ن ہوں تب ہی ملک کو بحرانو ں سے چھٹکا رہ مل سکتا ہے ۔دشنا م طرازی کی سیا ست سڑاند بحرانو ں کی اتھاہ گہر ائیو ں میں دھکیل دے گی ، یہ بھی دیکھنے میںآیا ہے کہ جو ش خطا ب میں یہ بھی خیال نہیں رکھاجا تا کہ کس کو مخاطب کیا جارہاہے اورتخاطب کے اصولو ں کا معیا ر کیا ہے ۔ قلقلا خان صافی فلسفی کہتے ہیں کہ عمر ان خان نے کس کی طر ف اشارہ کیا ہے کہ انھو ں نے فرما یا ہے دین امر معروف ونہی عن المنکر کا درس دیتا ہے ۔ انسان تو حق کے ساتھ کھڑا ہو تا ہے جانور غیر جانبدار ہو تا ہے جو نہ حق کے ساتھ ہے نہ منکر کے ساتھ ہے ۔ کوئی اشارے باز ی کا ماہر ہی اس منطق کو بیا ن کر سکتا ہے ۔سوشل میڈیا کے نا قدین اور سیا سی مخالفین اپنے اپنے طور پر اشارے دے رہے ہیں مگر قلقلا خان کا موقف ہے کہ رو س اور یو کر ائن کے معاملے پر وزیر اعظم کا مئوقف ہے کہ وہ دونو ں میںسے کسی کے ساتھ نہیں ہیں غیر جا نبد ار ہیں ، ان کا مئو قف ہے کہ روس اور یو کر ائن دونو ں مل کر بات چیت کے ذریعے اپنے تنا زعہ کو حل کر یں۔ بہرحال سیا ست میںزبان شیر ینی اولین ترجیح کی حیثیت رکھتی ہے ۔دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ عدم اعتما د کی تحریک جس کا واحد پلیٹ فارم پارلیمان کی چار دیو اری ہے اس کو اس مقد س دیوار سے گھسیٹ کر بازار لے آیا گیا ہے اور سوقیا نہ طور پر اس کو کھینچاجارہاہے ۔تحریک عدم اعتماد کا پیش ہو ناکوئی غیر آئینی یاغیر قانونی یا پھر غیر اخلا قی عمل نہیں ہے جب یہ محسو س کیا جا ئے کہ حکو مت اپنا منڈیٹ کھو چکی ہے تو عدم اعتماد کرنا اپوزیشن کا آئینی حق ہے ، جس سے اس کو روکا نہیں جا سکتا ۔ ماضی میںپا کستان میںبھی ایسی تحریک پیش ہو تی رہی ہیں لبنان میںبھی جب صدر حریری کے خلا ف عدم اعتما د کی تحریک پیش ہوئی ۔انھوں نے دیکھا کہ ان کے لیے اس تحریک کا سامناکرنا ممکن نہیں تو وہ مستعفی ہو گئے ۔اس کے برعکس کئی مثالیںایسی ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کوکامیابی نہیں ملی ۔ محتر مہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کے خلاف بھی مسلم لیگ ن نے تحریک عدم اعتما د پیش کی تھی اور رائے شما ری میںتحریک کو نا کا می کا سامنا کر نا پڑ ا ، بے نظیر بھٹو صاحبہ نے ثابت کیا کہ ان کو اسمبلی کی اکثریت کی حما یت حاصل ہے تحریک عدم پیش ہو نے کے بعد کسی طر ف سے سیا سی یا غیر سیا سی دھمکیو ں کا سلسلہ شرو ع نہ ہو تا ہے نہ ہو نا چاہیے ، جہا ں تک تحریک پیش کر نے والو ں اور جن کے خلا ف تحریک پیش ہو تی ہے ان کا عمل یہ جا ری رکھناکہ وہ اپنی کا میا بی کے لیے ارکا ن اسمبلی کے ساتھ روابط رکھیں اور ان کی حمایت حاصل کر یں تاکہ نا کامی نہ دیکھنا پڑے گویا ایسے مو قع پر سیا ست کا محور پا رلیما ن کے ارکا ن بن جا تے ہیںبات ان تک ہی محدود ہو جا تی ہے یہ شو شے چھو ڑنا کہ گدھو ں گھو ڑوں کی خرید اری ہورہی ہے کڑروںروپے بانٹے جا رہے ہیں ۔ اس سے براہ راست ملک کے مقد س ایو ان کا تقدس پائمال ہوتا ہے ۔منتخب عوامی نمائندے نہ صرف ایو ان کی عزت ہو تے ہیں وہ عوام کے لیے براہ راست باعث توقیر و احترام ہو تے ہیں ۔یہ بتانا کہ لوٹوں کو خریدا جارہا ہے یہ کسی تو ہین ہے ۔عالمی سطح پربھی قوم کی توہین ہے کیو ں کہ ایسی سیاست سے دنیا میں کیا تاثرجا تا ہے یہ ہی کہ پاکستان کے منتخب نمائندے بکا ؤ مال ہیں ۔سیا ست میںسب سے اہم عمل اعتما د کا ہی ہے چنانچہ ہر پا رٹی کو اپنے نمائندوں پر غیر متزلز ل یقین ہو نا چاہیے ۔ اگر نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ جس پر شک ہے اس میںکوئی کج ہے ۔ یہ کج پا رٹی میںبھی ہو سکتا ہے جس کی وجہ سے پارٹی کا نمائندہ سرک رہا ہے ۔گویا پارٹی کو مضبوط بنیا دو ںپر استوار ہوناچاہیے ۔نا کہ بد اعتما د کی بو سنگھ کر ملک بھر میںسیا سی ہلچل مچادی جائے جتنا بر ا فعل ووٹر کی خریدار ی ہے اتنا برا فعل بک جا نا بھی ہے ۔انگلی خریدارکی ہی جا نب نہیںاٹھائی رکھنا چاہیے اپنے پربھی غور وفکر کی ضرورت ہے ۔پھر اگر کسی پارٹی کا رکن ٹوٹ کر دوسری لا بی کی طرف جا رہا ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ضمیر بک گیا بلکہ پارٹی قیا دت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قیا دت کو اس قدر مستحکم کرے کہ لوگ پارٹی کو چھوڑ کر کسی دوسرے بلا ک میںجگہ تلاش نہ کریں ۔

مزید پڑھیں:  پاک روس تعلقات